+(00) 123-345-11

ایک شخص نے قادیانی عورت سے نکاح کیا اور اب اس کے اس سے بچے بھی ہیں سمجھانے کے باوجود اسے نہیں چھوڑ رہا (۱) کیاقادیانی عورت سے مذکورہ شخص کا نکاح درست ہے (۲) کیا ہم اس کو مسجد میں آنے سے روک سکتے ہیں (۳) نکاح پڑھانے والے شخص کا کیا حکم ہے(۴) بچوں کا نسب کس سے ثابت ہوگا (۵) مذکورہ شخص کو مسلمان سمجھا جائے یا قادیانی۔

مذکورہ عورت اگر نکاح کے وقت مرزائی یا قادیانی تھی تو اس صورت میں یہ نکاح درست نہیں ہوا لہٰذا مذکورہ شخص پر لازم ہے کہ وہ اس عورت سے علیحدہ ہو جائے اور جو گناہ ہوا ہے اس پر توبہ و استغفار کرے، اور اگر نکاح کے وقت یہ عورت مسلمان تھی بعد میں مرتد ہوئی تو اس صورت میں جب تک یہ عورت تجدیدِ اسلام کرکے تجدید نکاح نہ کرے اس وقت تک اس کے شوہر کے لئے اس سے جماع اور دواعی جماع جائز نہیں۔ (ماخذہ حیلۂ ناجزہ ص ۱۸۱)

مذکورہ شخص اگر اس عورت کے ساتھ رہتا ہے یا نکاح کے بعد بیوی کے مرتد ہونے کی صورت میں اس کے ساتھ جماع اور دواعی جماع سے باز نہیں رہتا تو اس صورت میں اس پر دبائو ڈالنے کے لئے عارضی طورپر قطع تعلق کرنا جائز ہے،البتہ اگر اس کا مسجد میں آنا نمازیوں کے لئے مضر نہ ہو یعنی وہ قادیانیت کی تبلیغ نہ کرتا ہو تو اس صورت میں اس کو مسجد میں آنے سے نہ روکا جائے۔

نکاح پڑھانے والے شخص کو اگر عورت کے مرزائی ہونے کا علم نہ تھا تو اس صورت میں وہ گناہ گار نہ ہوگا اور اگر اس کو عورت کے مرزائی ہونے کا علم تھا تو اس صورت میں وہ سخت گناہ گار ہے اس پر توبہ و استغفار کرے۔

بچوں کا نسب دونوں صورتوں میں مذکورہ شخص سے ثابت ہے۔ (ماخذہ تبویب ص ۵۴۱ : ج ۱۰۱)

مذکورہ شخص کے قادیانیوں کے ساتھ رہن سہن اور میل جول کی وجہ سے لوگوں میں شبہات پیدا ہورہے ہیں لہٰذا اس شخص کو چاہیے کہ وہ لوگوں کے سامنے قادیانیوں کے کفریہ عقائد سے براء ت کا اظہار کرے اور اپنے اس عقیدے کی وضاحت کرے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں اور آپ پر ہر قسم کی نبوت ختم ہو چکی ہے، نیز اس بات کا اقرار کرے کہ میں مرزا غلام احمد قادیانی اور اس کو نبی ماننے والوں کو کافر اور دائرہ اسلام سے خارج سمجھتا ہوں۔

فی الھندیہ (ص ۲۸۱ : ج ۱)

لا یجوز نکاح المجوسیات والوثنیات الی قولہ وکل مذھب یکفربہ معتقدہ۔ وفی الشامیۃ ( ص ۳۹۸ : ج ۳)

وتجبر علی الاسلام وعلی تجدید النکاح الی قولہ وافتٰی مشائخ بلخ بعدم الفرقۃ بردتھا وفی رد المختار، ولا یخفی ان الافتاء بما اختارہ ائمۃ بلخ اولیٰ من الافتاء بما فی النوادر۔

وفی الاشباہ والنظائر فی احکام المساجد

ویکرہ دخولہ (یعنی المسجد)لمن اکل کریھۃ ویمنع منہ وکذا وفی الشامیۃ (۴/۲۴)

لاحدّ ایضا بشبھۃ العقد ای عقد النکاح عندہ ای الام کوطئی محرم نکحھا وقالا ان علم الحرمۃ حُدَّ، وفی رد المختار انما یحد عندھما فی ذات المحارم لا غیرذلک کمجوسیۃ وخامسۃ ومعتدتہ الخ، وفی الدر ’’وحرر فی الفتح انھا من شبھۃالمحل وفیھا یثبت النسب‘‘۔

وفی الشامیۃ ’’وھذا صریح بان الشبھۃ فی المحل فیھا یثبت النسب‘‘۔

وفی الشامیۃ (۴/۲۲)

ولاحد بشبھۃ المحل وان ظن حرمتہ کوطئی امۃ ولدہ الی ان قال وزوجۃ حرمت بردتھا ۔۔۔ والواطی ان ادعیٰ النسب یثبت فی الاولیٰ ای فی شبھہ المحل۔