+(00) 123-345-11

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں:

-1حاملہ بیوی کو شوہر نے تین طلاقیں دیدی اب یہ مطلقہ وضع حمل سے پہلے دوسرے مرد سے نکاح کرتی ہے اور رخصتی بھی ہو جاتی ہے بعد میں وضع حمل ہوتا ہے اور مزید دو بچے بھی پیدا ہوتے ہیں اب سوال یہ ہے کہ اس مطلقہ کے شوہر ثانی کے ساتھ جو نکاح ہواتھا اس کی شرعی حیثیت کیا ہے آیا یہ نکاح ہوا یا نہیں۔

-2شوہر ثانی سے جو بچے پیدا ہوئے وہ ثابت النسب ہونگے یا نہیں؟

-3اب اگر وہ عورت طلاق لینا چاہے تو اس کی کیا صورت ہوگی طلاق لینا ضروری ہے یا بغیر طلاق کے بھی فرقت واقع ہو جائے گی۔

-4کیا شوہر ثانی محلل ہوگا یا نہیں، شوہر اول کے ساتھ نکاح جائز ہوگا یا نہیں۔

-5اگر شوہر ثانی کے ساتھ رہنا چاہے تو اس کی کیا صورت ہوگی۔

حاملہ عورت کی عدت چونکہ وضع حمل ہے اس لے یہ نکاح دوران عدت ہونے کی وجہ سے فاسد ہے اور اس پر درج ذیل احکام مرتب ہوں گے۔

۱۔اولاد ثابت النسب ہوگی۔

۲۔بغیر طلاق کے فرقت واقع ہو جائے گی۔

۳۔دوسرا شوہر خاوند اول کے لئے محلل نہیں ہوگا۔ اگر عورت دوسرے خاوند کے ساتھ رہنا چاہتی ہے تو بغیر عدت کے نکاح جدید کے ساتھ رہ سکتی ہے البتہ اگر پہلے خاوند سے نکاح کرنا چاہتی ہے تو نکاح صحیح کے ساتھ حلالہ شرعیہ کروا کر عدت گزارنے کے بعد نکاح کر کے رہ سکتی ہے۔

کما فی ’’الدر المختار مع الشامیۃ‘‘:

ویجب مھر المثل فی نکاح فاسد (وفی الشامیۃ) ومثلہ تزوج الاختین معا ، ونکاح الاخت فی عدۃ الاخت ونکاح المعتدۃ وان النسب یثبت فیہ والعدۃ ان دخل ۔ (مطلب فی النکاح الفاسد : ۳؍۱۳۱ : سعید)

وفی الدر المختار لاتنکح مطلقۃ بھا ای بالثلاث حتی یطأھا غیرہ بنکاح نافذ خرج بہ الفاسد والموقوف۔ (۲/۵۸۴) رشیدیہ

وفی ’’الفقہ الاسلامی وادلتہ‘‘:

وبالرغم من کون الدخول فی الزواج الفاسد معصیۃ۔ فانہ عند الحنفیۃ تترتب علیہ ثبوت النسب من الرجل ان وجد ۔ (حکم الزوج الفاسد : ۹؍۶۶۰۴ : رشیدیہ)

وفی ’’فتح القدیر‘‘:

النسب کما یثبت بالنکاح الصحیح یثبت بالنکاح الفاسد۔ (باب الثبوت النسب : ۶؍۱۸۳ : رشیدیہ)