+(00) 123-345-11



(۱) اگر روزگار نہ ہو اور شادی کی عمر ہو گئی ہو اور طاقت و قوت بھی خوب ہو تو کیا آدمی شادی کرسکتا ہے؟ یا مناسب روزگار تلاش کرے؟ اسی طرح دوسری اور تیسری شادی کے بارے میں بھی بتائیں۔

(۲) کسی شادی شدہ عورت کو بہکانہ اس نیت سے کہ وہ موجودہ مرد سے طلاق لے اور اس کے ساتھ شادی کرلے کیا یہ صحیح ہے؟ یا کسی شادی شدہ عورت سے تعلقات قائم کرنا جبکہ وہ بھی راضی ہو؟

-1 لوگوں کے حالات مختلف ہونے کی وجہ سے ہر شخص کے لئے نکاح کرنے یا نہ کرنے کا حکم الگ ہے جس کی تفصیل درج ذیل ہے۔

۱۔جو شخص حقوق زوجیت، مہر اور خرچہ اد اکرسکتا ہو اور نکاح نہ کرنے کی صورت میں برائی میں پڑنے کا یقین ہو ایسے شخص کے لئے نکاح کرنا فرض ہے۔

۲۔جو حقوق زوجیت، مہر اور خرچہ ادا کرسکتا ہو اور نکاح نہ کرنے کی صورت میں برائی میں پڑنے کا اندیشہ ہو ایسے شخص کے لئے نکاح کرنا واجب ہے۔

۳۔وہ شخص جو مہر، خرچہ پر قدرت رکھتا ہو اور نکاح نہ کرنے کی صورت میں برائی کا اندیشہ نہ ہو اس کے لئے نکاح کرناسنت مؤکدہ ہے۔

۴۔ جس شخص کو یہ اندیشہ ہو کہ نکاح کرنے کے بعد بیوی کے حقوق میں کوتاہی ہوگی اس کے لئے نکاح کرنا مکروہ تحریمی ہے۔

۵۔ اور جس شخص کو بیوی کے حقوق میں کوتاہی کا یقین ہو اس کے لئے نکاح کرنا حرام ہے۔

بیک وقت وقت چار عورتوں کو نکاح میں رکھنا جائز ہے۔

-2کسی شادی شدہ عورت کو خاوند سے طلاق لینے پر ابھارنا اور خود نکاح کرنے پر آمادہ کرنا گناہ ہے حدیث پاک میں اس پر سخت وعید آئی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے۔ ’’وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے جس نے کسی عورت کو اس کے خاوند کے خلاف بہکایا‘‘۔ اور ایک دوسری حدیث میں ہے کہ شیطان کو سب سے زیادہ خوشی اس شخص پر ہوتی ہے جو میاں بیوی میں جدائی ڈالتا ہو۔

(الترغیب والترھیب)

وفی ’’بذل المجھود‘‘:

ویکون واجبا عندالتوقان، فان تیقن الزنا الابہ فرض وھذا ان ملک المھر والنفقۃ والا فلا ویکون سنۃ موکدۃ فی الاصح فیاثم بترکہ ویثاب ان نوی تحصینا وولدا حال الاعتدال ای القدرۃ علی وطئی مھر ومکروھا تحریما لخوف الجور فان تیقنہ حرم ذلک۔ (۳؍۲۱۰)

وفی ’’الترغیب والترھیب‘‘:

عن بریدۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لیس منا من خلف بالامانۃ ومن خبب علی امریٔ زوجتہ او مملوکہ فلیس منا۔ (۳؍۵۹)