+(00) 123-345-11

گزارش ہے کہ ہم 6بہن بھائی ہیں جن میں سے 4بھائی اور 2بہنیں ہیں جن میں سے 2بھائی اور 1بہن شادی شدہ جبکہ 2بھائی اور ایک بہن غیر شادی شدہ ہے۔ جو کہ تمام بالغ ہیں اور تمام بھائی برسر روزگار ہیں اور غیر شادی شدہ بہن کو والدہ کی پنشن بھی مل رہی ہے۔ ہمارے والد کی وفات 19فروری 2003کو جبکہ والدہ کی وفات 24اکتوبر 2008کو ہوئی۔ ہمارے دو مکان ہیں جن میں سے ایک کو ہم نے کرائے پر دیا ہوا ہے اور جس مکان میں ہم سب رہائش پذیر ہیں اس کا بھی کچھ حصہ والدہ نے اپنی زندگی میں ہی کرائے پر دیا ہوا تھا میں نے والدہ کی زندگی میں ہی گھریلو جھگڑوں کے باعث اپنا کھانا وغیرہ الگ کرلیا تھا۔ جبکہ مکان وہی تھا۔ والدہ کی زندگی میں ان مکانات کا کرایہ وہ وصول کرتی تھیں لیکن والدہ کی وفات کے بعد تمام کرایہ باقی 5بہن بھائی وصول کرنے لگے اور انہوں نے والدہ کی وفات کے بعد مجھے کسی قسم کا کوئی حساب نہیں دیا۔ میں نے جب بھی پوچھنے کی کوشش کی تو انہوں نے مجھے کہا کہ ہم والدہ کی کچھ کمیٹی جو انہوں نے اپنی زندگی میں ڈال رکھی تھیں وہ اس کرائے سے ادا کر رہے ہیںلیکن اب تقریباً ڈیڑھ سال گزرنے کے بعد بھی انہوں نے مجھے کسی قسم کا کوئی کرائے میں حصہ نہیں دیا اور نہ ہی مجھے کچھ حساب وغیرہ بتایا۔ جس مکان میں ہم رہائش پذیر ہیں اس کا بھی کچھ حصہ کرائے پر ہے لیکن اس حصے کا بجلی کا میٹر میرے حصے میں ہے اور اس کا بل میں ادا کرتا ہوں لیکن کرایہ دوسرے بھائی بہن وصول کررہے ہیں۔ میرا سوال یہ ہے کہ :

۱۔ ہماری والدہ کے بینک میں تقریباً ساڑھے پانچ لاکھ روپے تھے جسے تمام بہن بھائیوں نے اپنا اپنا الگ حصہ وصول کر لیا ہے تو درست کیا ہے۔

۲۔ کیا جن بہن بھائیوں کی شادی نہیں ہوئی ان کی شادی کی ذمہ داری میری ہے کیونکہ میں بہن بھائیوں میں سب سے بڑا ہوں لیکن ان سے الگ ہوں۔

۳۔ کیا ان مکانات کے کرائے میں میرا حصہ ہے اور اگر ہے تو کتنا۔ اگر میرے بہن بھائی مجھے اس کرائے میں سے حصہ نہیں دیتے تو کیا وہ گناہ گارہونگے اور میں وہ کرایہ کس طرح وصول کر سکتا ہوں اگر ان سے مانگوں تو مجھ سے جھگڑا کرتے ہیں اور اگر وہ میرا حصہ مجھے نہیں دیتے تو کیا انہیں کوئی گناہ ہوگا۔

۴۔ اگر والدہ کی وفات کے بعد ان کی کچھ کمیٹی جو میرے بہن بھائیوں نے وصول کر لی ہیں تو کیا اس میں میرا حصہ ہے اور اگر ہے تو کتنا۔

۵۔ اگر میں ان دونوں مکانات کو بیچ کر وراثتی تقسیم کی بات کروں تو کیا میں گناہ گار تونہیں ہوں گا۔

۶۔ والدہ کی وفات کے وقت میں نے کفن دفن پر تقریباً 19000روپے خرچ کئے تھے جو باقی بہن بھائیوں نے نہیں دیا بلکہ میں نے اکیلے نے وہ پیسے ادا کئے تھے کیا میں وہ رقم واپس مانگ سکتا ہوں جبکہ انہوں نے کورٹ میں وکیل کے سامنے کہا تھا کہ وہ یہ پیسے ادا کئے تھے کیا میں وہ رقم واپس مانگ سکتا ہوں اگر مجھے وہ یہ پیسے نہیں دیتے کیا گناہگار ہوں گے اوراگر دیتے ہیں تو کتنے دیں گے۔ برائے مہربانی قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں۔

(۱) ہر وہ مال جو بوقت انتقال مرحوم کی ملکیت میں ہو خواہ جائیداد منقولہ ہو جیسے سونا چاندی اور نقدی وغیرہ یا غیر منقولہ ہو جیسے زمین اور مکان وغیرہ اس کو ترکہ شمار کیا جاتا ہے۔ ترکہ سے تین قسم کے حقوق متعلق ہوتے ہیں۔ جن کو ذکر کی گئی ترتیب کے مطابق ادا کرنا ضروری ہے۔

(۱) سب سے پہلے مرحوم کے کفن دفن پر ہونے والے جائز و متوسط اخراجات ترکہ سے نکالے جاتے ہیں البتہ اگر کسی وارث نے بخوشی یہ اخراجات کر لئے ہوں تو ترکہ سے نکالنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ سوال میں ذکر کردہ شق نمبر ۶ کی روشنی میں اگر والدہ مرحومہ کے کفن دفن پر ہونے والے 19000کے اخراجات آپ کی طرف سے احسان اور تبرع کے طور پر نہیں تھے تو آپ والدہ مرحومہ کے ترکہ سے اتنی مقدار لینے کا حق رکھتے ہیں۔

(۲) اس کے بعد باقی مال سے مرحوم کا قرض ادا کیا جاتا ہے اگر اس پر کسی کا قرض ہو۔ خواہ قرضوں کی ادائیگی میں سارا مال لگ جائے۔

(۳) اس کے بعد اگر مرحوم نے کسی غیر وارث کے حق میں جائز وصیت کی ہو تو باقی مال کے تہائی تک اس کو نافذ کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد باقی مال کو ورثاء میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ پہلے والد مرحوم اور پھر والدہ مرحومہ کی جائیداد کو تقسیم کرنا ضروری ہے۔

(۲) (1,3,4,5)والدہ مرحومہ کا بینک بیلنس مکانات کے کرایہ کی مد میں حاصل ہونے والی رقوم، کمیٹیاں اور مکانات سب ترکہ میں شامل ہیں۔ اور ان کو ورثاء میں شرعی طریق کار کے مطابق تقسیم کرنا ضروری ہے۔ ورثاء میں سے کسی کو بھی اس کے حصہ سے محروم کرنا شرعاً جائز نہیں ہے۔

(۶) چھوٹے بہن بھائیوں کی شادی اور اس کے اخراجات برداشت کرنا شرعاً آپ پر واجب نہیں ہے البتہ اگر بخوشی یہ کام انجام دے دیں تو آپ کے لئے باعث اجروثواب ہوگا۔

لما فی ’’تنقیح الحامدیہ‘‘

غاب احد شریکی الدار فاراد الحاضر ان یسکنھا رجلا ویؤجرھا رجلا لا ینبغی ان یفعل ذلک دیانۃ اذا التصرف فی ملک الغیر حرام ولا یمنع ذلک قضاء اذا الانسان لا یمنع من التصرف فیما بیدہ لو لم ینازعہ احد فلو اٰجر واخذ الاجر یرد علی شریکہ نصیبہ لو قدر والایتصدق بالاجر او یردہ علی المالک واما نصیبہ فیطیب لہ (۱؍۹۵)