+(00) 123-345-11



(۱) کیا فرماتے ہیں علمائے دین ؟ الف، ب، ج، د ان میں دو بھائی اور دو بہنیںہیں لیکن جن میں الف بڑا بھائی اور متوفی کا سب سے بڑا بیٹا ہے۔ آج سے تیرہ چودہ سال قبل حکومت پاکستان نے ٹیوب ویل نصب کرنے کے لیے سب سڈی یعنی امدادی رقم دی جو کہ مندرجہ بالا افراد کے متوفی والد کی جائیداد پر منظور ہوئی اس وقت متوفی کے بڑے لڑکے نے ٹیوب ویل نصب کرنے پر مزید رقم تقریباً سب سڈی کے برابر خرچ کی نہ کہ والد مرحوم نے مگر اس وقت والد ہی کی سرپرستی میں سب ایک ہی کنبہ تھا۔ جس کا نان ونفقہ وغیرہ ورہائش کا اہتمام ایک ہی گھر میں یعنی متوفی کے گھر میں تھا اس وقت چاہے ذاتی جائیداد کی آمدنی تھی یا کسی دوسرے ذرائع سے آمدنی تھی اسی گھر میں خرچ ہوتی تھی گھر میں موجود افراد میں سے زیادہ تعداد الف ہی کی تھی باقی صرف متوفی اور ایک لڑکی تھی ایک لڑکی بہت عرصہ پہلے بلکہ ٹیوب ویل نصب ہونے سے پہلے شادی شدہ تھی متوفی کا چھوٹا لڑکا 1962ء سے چھوٹی سی ملازمت میں تھا اس کی تنخواہ کا حصہ متوفی والد وصول کر کے اسی گھر میں خرچ کرتا تھا یا وہ چھوٹا لڑکا بھی اسی گھر کا فرد ہونے کی حیثیت سے اسی گھر میں خرچ کرتا تھا چھوٹے لڑکے کی شادی 1978ء میں ہوئی جبکہ بڑے لڑکے کی اولاد اسی مشترکہ گھر میں جوان ہو چکی تھی۔ چھوٹے لڑکے نے شادی کرکے اپنی بیوی اپنے پاس رکھی 1950ء میں متوفی نے اپنے بڑے لڑکے کو علیحدہ رہائش دے کر نان و نفقہ علیحدہ کر دیا جبکہ جائیداد وغیرہ پر چاہے ٹیوب ویل سے متعلقہ تھی یا دوسری تھی اس پر متوفی کا مکمل کنٹرول تھا اب جبکہ متوفی وفات پا چکے ہیں ان کی جائیداد قانون و شریعت کے مطابق وارثان باز گشت یعنی ا، ب ، ج، د، دو بھائیوں اور دو بہنوں کو منتقل ہو چکی ہے۔ مگر اب الف کا یہ مطالبہ ہے کہ ٹیوب ویل پر میرا ذاتی خرچ ہوا ہے لہٰذا اس ٹیوب ویل میں کسی کا حصہ نہیں بن سکتا۔ اب مسئلہ حل طلب یہ ہے کہ مندرجہ بالا حالات کے مطابق ازروئے شریعت محمدی ا الف کے ہاتھ سے کیا گیا خرچ مشترک تصور ہو گایا نہیں۔

(۲) اگر ان کے جیب سے خرچ کی گئی رقم مشترک طے نہ پائے تو کیا سب سڈی جو کہ والد کی جائیداد پر منظور ہو ئی تھی وہ بھی الف ہی کی تصور ہو گی اور اسے واحد مالک قرار دیا جائے گا اگر واحد مالک تصور نہ ہو سکے تو وارثان باز گشت کا کتنا کتنا حصہ بن سکے گا یاپھر اگرصرف سب سڈی میں وارثان باز گشت کس نسبت سے وارث بن سکیں گے متوفی کی بیوی 1956 ء میں وفات پا چکی تھی۔ وارثان میں صرف دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں جن کو ٹیوب ویل کے حصہ کی تحقیق درکار ہے تفصیلی طور پر آگا ہ فرما کر ثواب دارین حاصل فرما ئیں۔

(۱) والد صاحب کو جو رقم ان کی جائیداد کی فرد پر حکومت کی طرف سے موصول ہوئی وہ والد صاحب کی ملک ہے اور ’’الف‘‘ نے ٹیوب ویل نصب کرنے کے لیے جو رقم اپنی جیب سے خرچ کی اگر خرچ کرتے وقت اس نے والد مرحوم سے بعد میں واپس لینے کی یا صرف کردہ رقم کے قرض ہونے کی صراحت کر دی تھی تو یہ رقم والد صاحب کے ذمہ قرض ہو گی جو آنے والے طریقہ کے مطابق والد مرحوم کی جائیداد سے ادا کیا جائے گا۔

اور اگر ’’الف‘‘ کے پاس رقم کے قرض ہونے کا ثبوت نہیں اور ورثاء بھی قرض کو تسلیم نہیں کرتے تو یہ بیٹے کی طرف سے والد صاحب کیلئے تعاون اور امداد ہو گی جس کے لینے کا وہ بعد میں مطالبہ نہیں کر سکتا، بہر د و صورت خاص ٹیوب ویل پر صرف ’’الف‘‘ کا حق نہیں، بلکہ قرض ہونے کی صورت میں اپنی رقم آنے والے طریقے کے مطابق پوری جائیداد سے وصول کرے گا اور امداد ہونے کی صورت میں واپسی کا مطالبہ بھی نہیں کر سکتا (ہاں اگر ٹیوب ویل نصب کرنے میں ’’الف‘‘نے والد مرحوم سے کوئی شراکت کا معاہدہ کیا ہو تو وضاحت کر کے دوبارہ مسئلہ معلوم کر لیں)

الا بن اذا کان فی عیال الاب یکون معینا لہ فیما یصنع(تکملہ شامیۃ: ۷،۴ ،۵) الاب وابنہ یکتسبان فی صنعۃ واحدۃ ولم یکن لھما شیء فالکسب کلہ للاب ان کان الابن فی عیالہ لکونہ معینا لہ الا تری انہ لو غرس شجرۃ تکون للاب (شامیۃ / ۴: ۳۲۵)

(۲) والد مرحوم نے بوقتِ انتقال اپنی ملکیت میں منقولہ و غیر منقولہ جائیداد مکان، دکان ، نقدی سونا چاندی ، زیورات، استعمالی اشیاء اور کپڑے وغیرہ غرض یہ کہ چھوٹا بڑا سازو سامان جو کچھ چھوڑا ہے یہ سب ان کا ترکہ ہے اس سے سب سے پہلے مرحوم کی تجہیز و تکفین کے متوسط مصارف (سنت کے مطابق) نکالیں اس کے بعد دیکھیں کہ اگر مرحوم کے ذمے کوئی واجب الاداء قرض ہے تو قرض ادا کیا جائے (لیکن) اگر قرض خواہ نے اپنی خوشی سے معاف کر دیا تو ادائیگی ضروری نہیں) اگر مرحوم نے اپنی بیوی کا مہر ادا نہیں کیا تھا اور بیوی نے اپنا مہر خوشدلی سے معاف بھی نہیں کیا تھا تو وہ بھی قرضہ ہے اس کو ادا کریں۔ اس کے بعد پھر دیکھیں مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو اس پر باقی ماندہ ترکہ کی ایک تہائی(1/3) کی حد تک عمل کریں اس کے بعد جو کچھ ترکہ بچے تو ا س کے مساوی چھ حصے کر کے اس طرح تقسیم کریں کہ ہر بیٹی کو ایک حصہ اور ہر بیٹے کو دو حصے ملیں۔

(نوٹ ) یہ مجموعی طور پر کل ترکہ کی تقسیم کا طریقہ کار ہے اگر صرف ٹیوب ویل کی تقسیم پیش نظر ہے تو اس کے چھ حصے اندازہ کر کے اسی تناسب سے تقسیم کر لیں۔

واضح رہے کہ میراث کی یہ تقسیم اس صورت میں جبکہ مرحوم کے انتقال کے وقت مرحوم کے ماں باپ، دادا دادی، نانی اور بیوی وغیرہ میں سے کوئی زندہ نہ ہو اگر مرحوم کے انتقال کے وقت مذکورہ ورثاء میں سے کوئی بھی زندہ تھا تو مسئلہ دوبارہ معلوم کر لیں۔

…… واللہ اعلم

( محمود احمدعفی عنہ)

{ بھتیجے اور بھتیجی کے درمیان تقسیم ترکہ}

سوال:صغیر خان اور یعقوب خان دو سگے چچیرے بھائی تھے چونکہ ان کے والدین آپس میں سگے بھائی تھے ۔ 7/9/92 مسٹر صغیر خان فوت ہو گئے ان کے بعد ان کا کوئی قانونی وارث نہ تھا سوائے مسٹر جمال اور مس وینا جو کہ یعقوب (مرحوم) کی اولاد حقیقی ہیں۔

مسٹر جمال یعقوب اور مس وینا یعقوب خان کا شرعی حصہ کیا ہے؟

سوال میں ذکر کردہ صورت کے مطابق صغیر خان مرحوم کا وارثِ شرعی اس کا حقیقی بھتیجا جمال ہے ، جمال مذکورہ عصبہ ہونے کی وجہ سے اپنے چچا مرحوم کی کل جائیداد کا مستحق ہے اور صغیر خان مرحوم کی بھتیجی جو جمال کی بہن ہے مرحوم کی جائیداد سے شرعا محروم رہے گی کیونکہ وہ ذوی الارحام میں سے ہے جوعصبہ کی موجودگی میں محروم ہو جاتے ہیں لیکن یہ اس صورت میں ہے جبکہ صغیر خان مرحوم کی وفات کے وقت کوئی دیگر وارث مثلاً مرحوم کے باپ دادا بیٹا پوتا وغیرہ میں سے کوئی بھی زندہ نہ ہو اگر اس کی وفات کے وقت کوئی دوسرا وارث زندہ تھا تو پھر تفصیل بتا کر مسئلہ دوبارہ معلوم کریں۔

قال فی السراجی: ثم جزء ابیہ ای الاخوۃ ثم بنوھم وان سفلوا الخ ص ۱۴ وفیہ ایضا ذوالرحم ھو کل قریب لیس بذی سھم ولا عصبۃ والصنف الثالث ینتمی الی ابوی المیت وھم اولاد الاخوات وبنات الاخوۃ الخ (ص۳۵)

وفی ایضا : والعصبۃ کل من یأخذ ما ابقتہ اصحاب الفرائض وعند الانفراد یحرز جمیع المال الخ (ص۴)