+(00) 123-345-11

مندرجہ ذیل مسئلہ میں شرعی حکم لکھ کر مشکور فرمائیں۔

افضل خان کے مرنے کے بعدمذکورہ ورثاء میں سے شریعت کی رو سے کون کون سے وارث کے حقدار ہیں۔ اور کون سے وراثت کے حق دار نہیں ۔ افضل خان کے مرنے کے بعد ورثاء میں ایک چچا زاد بھائی شاہ درخان اور سید عمر اور ایک چچا زاد بہن بی بی سلطان ذری بنت سید عمر ہے جبکہ دوسرے چچا مسمی محمد حسین کی اولاد میں سے بی بی زرفشان بی بی لوح افزاء اور بی بی پریر و بنات (محمد حسین کی اولاد ) چھوڑے ہیں۔

(۱) افضل خان ولد ظفر ولد محمد حسین ہے۔

(۲) چچا زاد بھائی شاہ درخان و سلطان ذری بی بی ولد سید عمر ولد محمد حسن ہے۔

(۳) بی بی زرفشاں ، بنت پری رو، بنت روح افزاء ،بنت محمد حسین ولدمحمد حسن ہے ۔

(۴) خان بہادر ولد ظفر ولد محمد حسن اپنے بھائی افضل خان سے پہلے فوت ہو گیا ہے۔

مرحوم نے بوقتِ انتقال اپنی ملکیت میں منقولہ وغیر منقولہ جائیداد، مکان، دکان، نقدی ، سونا چاندی، زیورات، استعمالی اشیاء اور کپڑے وغیرہ غرضیکہ چھوٹا بڑا ساز وسامان جو کچھ چھوڑا ہے یہ سب ان کا ترکہ ہے، اس سے سب سے پہلے مرحوم کی تجہیز و تکفین کے متوسط مصارف (سنت کے مطابق) نکالیں، اس کے بعد دیکھیں کہ اگر مرحوم کے ذمے کوئی واجب الاداء قرض ہے تو قرض ادا کیا جائے (لیکن اگر قرض خواہ نے اپنی خوشی سے معاف کر دیا ہو تو ادائیگی ضروری نہیں) اگر مرحوم نے اپنی بیوی کا مہر ادا نہیں کیا تھا اور بیوی نے اپنا مہر خوشدلی سے معاف بھی نہیں کیا تھا تو وہ بھی قرضہ ہے اس کو ادا کریں، اس کے بعد پھر دیکھیں مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو اس پر باقی ماندہ ترکہ کی ایک تہائی (1/3)کی حد تک عمل کریں، اس کے بعد جو کچھ ترکہ بچے تو وہ سارا کا سارا مرحوم کے چچا زاد بھائی شاہ درخان کوملے گا جس میں مرحوم کی چچا زاد بہنوں (سلطان زری، زرفشاں، روح افزاء پری رو) کا کوئی حق نہیں (ہاں اگر چچا زاد بھائی(شاہ درخان) ان کو اپنی خوشی سے کچھ دینا چاہے تو دے سکتا ہے) لہٰذا چچا زاد بہنوں کا مرحوم کی جائیداد میں سے اپنا حصہ مانگنا یا بدون سبب شرعی اپنے نام انتقال کروانا درست نہیں، اگر ایسا کیا ہے تو وہ سخت گناہگار ہیں۔ ان کو چاہیے کہ وہ حقدار کو اس کا حق واپس کر کے آخرت میں بری ٔ الذمہ ہوں۔

واضح رہے کہ میراث کی یہ تقسیم اس صورت میں ہے جبکہ مرحوم کے انتقال کے وقت اور کوئی وارث مثلاً ماں، باپ، داد، دادی، نانی، بیٹا، بیٹی، پوتا، پوتی، بھائی بہن(حقیقی یا باپ شریک یا ماں شریک) بھائی کا بیٹا، چچا، بیوی وغیرہ میں سے کوئی نہ ہو، اگر مرحوم کے انتقال کے وقت مذکور ورثاء میں سے کوئی بھی زندہ تھا تو مسئلہ دوبارہ معلوم کرلیں۔

وفی السراجیہ: ومن لا فرض لھا من الاناث واخوھا عصبۃ لا تصیر عصبۃ بأخیھا کالعم والعمۃ ، کان المال کلہ للعم دون العمۃ وفی الشریفیۃ تحتہ وکذا الحال فی العم مع بنت العم لاب وأم أو لاب وابن الأخ مع بنت الأخ (ص:۴۰) وفی ضیاء السراج ھامش السراجی: والحاصل ان من العصبات من ینفرد بالمیراث ذکورھم دون اخواتھم، وھم أربعۃ ایضا، العم و ابن العم وابن الاخ وابن المعتق، خزانۃ المفتین (ص:۱۴)