+(00) 123-345-11

میں شاہد احمد ولد خورشید ، ساکن جاپان سائتا ما ٹوکیو میں 17سال سے رہائش پذیر ہوں مستقل رہائش ویزا اور کام کرنے کی پابندی کی وجہ سے میں نے 1999ء میں جاپانی خاتون سے جس کا نام اکیرہ ہے مسلمان کر کے شادی کر لی اور میں اب دو بچوں کا باپ ہوں۔ میں جاپانی قانون کے تحت اس کی غیر موجودگی میں کاغذات (طلاق) سائن کر کے بچوں سمیت اپریل 2009ء میں پاکستان آگیا ہوں۔ اب میری بیوی چاہتی ہے کہ وہ پاکستان آکر میرے ساتھ رہے اور میری تمام شرائط پوری کرے۔ اس سلسلے میں کچھ سوالات ہیں جن کا جواب آپ سے مطلوب ہے سوال درج ذیل ہیں:

۱۔ کیا میری طلاق واقع ہو گئی؟ واضح رہے اس کی غیر موجودگی میں کاغذات سائن کئے گئے ہیں اور نکاح اسلامی شریعت کے مطابق ہوا تھا جو کہ وہاں رجسٹرڈ ہے؟

۲۔ کیا میں دوبارہ رجوع کر سکتا ہوں؟ واضح رہے کہ طلاق کے پیپر کے سائن کے وقت نہ تو کوئی لفظ منہ سے کہا گیا تھا اور نہ ہی گواہان موجود تھے۔

۳۔ کیا میں دوبارہ اسی بیوی سے نکاح کر سکتا ہوں؟

۴۔ کیا دوبارہ رجوع کیلئے حلالہ لازمی ہے؟

۵۔ کیا جاپانی قانون کے مطابق طلاق ہوئی اور اسلامی قانون کے تحت نہیں؟

جاپانی بلدیہ کے طلاق نامے پر میں نے اپنا نام والدین کا نام جاپانی پتہ اور پاکستانی پتہ لکھ کر پاسپورٹ کی پوری کاپی لگا کر گھر پر رکھ آیا تھا اور اپنی جگہ پر بھی سائن کر دئیے تھے۔

جس طرح زبان سے طلاق واقع ہو جاتی ہے اسی طرح تحریر سے یا طلاق نامہ پر دستخط کرنے سے بھی طلاق واقع ہو جاتی ہے خواہ زبان سے تلفظ کیا ہو یا نہ کیا ہو اور بیوی حاضر ہو یا نہ ہو لہٰذا صورت مسئولہ میں اگر طلاق نامہ کی کیفیت یہی تھی جو کہ سوال نامہ کے ساتھ منسلک ہے اگرچہ اس میں صرف لفظ طلاق کا ذکر ہے تعداد اور طلاق دینے کا صراحت کے ساتھ تذکرہ نہیں ہے لیکن طلاق نامہ پر دستخط کرنا چونکہ طلاق دینے کا اقرار ہے اس لیے شرعاً ایک طلاق رجعی واقعی ہو چکی ہے جس کا حکم یہ ہے کہ عدت کے اندر خاوند رجوع کر سکتا ہے اور عدت گزرنے کے بعد میاں بیوی کی حیثیت سے زندگی گزارنے کیلئے تجدید نکاح ضروری ہو گا۔

لما فی ’’الشامیۃ‘‘-

ولو قال لکاتب اکتب طلاق امرأتی کان اقرار بالطلاق الخ