+(00) 123-345-11

ایک گلی جس میں دو افراد کے دروازے ہیں اس میں مکان فروخت ہو رہا ہے اور ایک شخص کی دیوار فروخت ہونے والے مکان سے ملتی ہے اور مزید یہ کہ اس مکان کو اگر دوسرا خریدتا ہے تو اس کا نقصان بھی ہے اس صورت میں حق شفعہ کا حقدار کون ہے؟

اصل سوال سے پہلے تمہید کے طور پر چند باتوں کا معلوم ہونا ضروری ہے۔

۱۔ اگر ایک گلی میں متعدد مکان ہوں اور سب کی آمد ورفت اسی گلی میں سے ہو یا ان کو اس گلی میں آمدورفت رکھنے کا حق حاصل ہو اور اس گلی میں کوئی مکان فروخت ہو تو یہ سب حضرات ’’شریک فی حق المبیع‘‘ ہوں گے اور ان کو برابر کا حق شفعہ حاصل ہوگا۔

۲۔ شریعت میں حق شفعہ ملنے کی وجہ یہ ہے کہ شفیع نئے پڑوسی کے ضرر اور تکلیف سے محفوظ رہ سکے۔ لیکن اگر شفیع متعدد ہوں تو ان میں سے جس کا ضرر زیادہ ہو گا وہ حق شفعہ میں مقدم ہوگا۔

لہٰذا صورت مسئولہ میں سائل نے جو نقشہ پیش کیا ہے اس کے مطابق دونوں حضرات کے گھروں کا دروازہ اسی گلی میں کھلتا ہے جس میں بائع کا مکان واقع ہے تو دونوں حضرات’’شریک فی حق المبیع‘‘ ہیں لیکن چونکہ دوسرے شفیع کی دیوار بائع کے گھر کے ساتھ متصل ہے تو اس کا ضرر زیادہ ہے اس لئے یہ حق شفعہ میں مقدم ہو گا۔

لما فی شرح المجلۃ(لرستم بازؒ)

لو بیعت دار لھا باب علی طریق خاص کان اصحاب سائر البیوت التی تفتح ابوابھا علی ذلک الطریق کلھم شفعاء اما اذا بیعت احدیٰ الریاض التی تسقی من نھر ینتفع قبۃ العموم او احدی الدور التی لھا باب علی الطریق العام فلیس لاصحاب الریاض الاخر التی تسقی من ذلک النھر الخ (ا/ ۵۶۴)

وفیہ ایضا:

الشفعۃ لرفع الضرر الدائم فکلما کان اخص اتصالا کان اخص بالضرر فکان احق بھا الا اذا سلم(۱/۵۶۴)

وفی ’’درر الحکام‘‘:

(قولہ اصحاب الدورالتی لھا ابواب) لیس بتعبیر احترازی فلو لم یکن لھا باب فی المتشعب بل کان لا صحابھا حق فی فتح الباب کانوا شفعاء لان استحقاق الشفعۃ بجواز فتح الباب فمن کان لہ ولایۃ فتح الباب فی الزقاق کان لہ حق الشفعۃ ومن لم یکن لہ ولایۃ فتح الباب فلیس لہ حق الشفعۃ بسبب ذلک الزقاق

وفیہ ایضا :

یقدم فی الشفعۃ الاخص بالضرر علی الاعم والاخصیۃ کما تکون فی الخلیط فی حق المبیع تکون أیضا فی المشارک فی نفس المبیع (۴/۶۸۵)