+(00) 123-345-11

ماہ ربیع الاول کے حوالہ سے عورتیں یا مرد اپنے گھروں میں میلاد شریف کے نام سے تقریب منعقد کرتے ہیں جس میں بعض بلکہ اکثر گھرانوں میں عورتیں میلاد لاؤڈ سپیکر پر بلند آواز سے او ر خوب لہک لہک کر پڑھتی ہیں اور شرکت کیلئے باقاعدہ دعوت دی جاتی ہیں اور اختتام مجلس پر شربت یا مٹھائی سے خاطر تواضع کی جاتی ہے اور میلاد پڑھنے والی خواتین عجیب قسم کے قصے پڑھ کر خواتین کو گمراہ کرتی ہیں۔ لہٰذا جناب سے گزارش یہ ہے کہ بندے کو قرآن وحدیث کی روشنی میں اس مسئلے کے بارے میں آگاہ فرمائیں۔

اس میں شک وشبہ کی ادنی گنجائش نہیں کہ حضور ا کے ساتھ عقیدت اور محبت عین ایمان ہے اور آپ کی ولادت سے لے کر وفات تک زندگی کے ہر شعبہ کے صحیح حالات و واقعات اور آپ کے اقوال و افعال کو پیش کرنا باعث نزول رحمت خدواندی ہے اور ہر مسلمان کا فریضہ ہے کہ وہ آپ کی زندگی کے حالات معلوم کرے اور ان کو مشعل راہ بنائے لیکن اس تذکرہ کو چند رسومات کے ساتھ ربیع الاول کی بارہویں تاریخ میں مخصوص کرنا، اور میلاد منانا محفل اور مجلس منعقد کرنا آنحضرت ا، حضرات صحابہ کرامؓ اور اہل خیرالقرون سے ثابت نہیں حضور ا نبوت کے بعد تیئس سال حیات رہے اور پھر تیس سال خلافت راشدہ کے گذرے اور پھرایک سو دس ہجری تک حضرات صحابہ کرام ؓ کا دور رہا ہے کم و بیش دو سو بیس برس تک تبع تابعین کا زمانہ تھا عشق ان میں کامل تھا محبت ان میں زیادہ تھی ۔ آنحضرت ا کا احترام اور تعظیم ان سے بڑھ کر کون کر سکتا ہے مگر ان حضرات میں سے کسی سے بھی مروجہ طریقہ سے محفل میلاد کا کوئی ثبوت نہیں نیز مروجہ عید میلادالنبی کی تقریبات میں خلاف شرع مفاسد پائے جاتے ہیں ان میں سے کچھ یہ ہیں۔

(۱)مولود خواں اکثر من گھڑت اور بے سروپا قصے بیان کرتے ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا حالانکہ اس معاملہ میں احتیاط کی بہت ضرورت ہے حضور ا نے فرمایا کہ جس نے جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ بولا وہ اپنا ٹھکانہ جہنم بنا لے۔

(۲) اس عمل کیلئے اتنا اہتمام کیا جاتا ہے کہ ضروریات دین کے لیے بھی اتنا اہتمام نہیں ہوتا، اور اس میں ناجائز اسراف اور فضول خرچی کرتے ہیں اور فضول خرچی کرنے والوں کو قرآن پاک نے شیطان کا بھائی کہا ہے۔

(۳) نیز ولادت کا دن متعین کرنے کو ضروری سمجھتے ہیں اس کے علاوہ اور کسی دن میں اس کو نہیں کرتے، اور اپنی طرف سے اس تقیید اور تعیین کو ضروری سمجھنا بدعت ہے نیز ان امور پر اصرار کرتے ہیں اور نہ کرنے والوں کو ملامت کا نشانہ بناتے ہیں گویا اس کو فرض و واجب کا درجہ دیا گیا ہے جو کسی دلیل شرعی سے ثابت نہیں۔

(۴) سال میں ایک دن یہ تقریبات منعقد کر کے باقی پورا سال غافل رہنا رسمی تعلق کی نمائش ہے، ہونا تو یہ چاہیے کہ سال میںہر مہینہ اور مہینہ میں ہر ہفتہ اور ہفتہ میں ہر دن سرکار دو عالم ا کی ذاتِ بابرکات کا ذکر مبارک ہو اور آپ ا کی سیرت طیبہ کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھال کر مکمل اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہوں۔

(۵) عورتوں کا بلند آواز سے لاؤڈ اسپیکر پر لہک لہک کر میلاد پڑھنا اور نامحرم مردوںتک ان کی آواز جانا جائز نہیں کیونکہ شرعی ضرورت کے بغیر عورتوں کو اپنی آواز غیر محرموں کو سنانا منع ہے۔

غرض مروجہ محفل میلاد متعدد مفاسد اور خرابیوں کی وجہ سے ناجائز ہے لہٰذا اس سے بچنا لازم ہے۔

قال ابن امیر حاج و من جملۃ ما احدثوہ من البدع مع اعتقادھم ان ذلک من اکبر العبادات و اظہار الشعائر ما یفعلونہ فی شھر ربیع الاول من المولد وقد احتویٰ علی بدع و محرمات جمۃ (المدخل ۲:۳ ) فانا للّٰہ وانا الیہ راجعون علی عدم الاستحیاء من عمل الذنوب یعملون اعمال الشیطان ویطلبون الأجرمن رب العالمین ویزعمون انھم فی تعبد وخیر (المدخل ۲:۷) وقال الفاکھانی: لا اعلم لہذ المولد أصلا فی کتاب ولا سنۃ ولا ینقل عملہ عن احد من علماء الامۃ الذین ھم القدوۃ فی الدین المتمسکون بأثارالمتقد مین بل ھو بدعۃ احدثھا البطالون وشھوۃ نفس اعتنی بھا الاکالون (الحاوی للفتاویٰ ۱۱ ، ۱۱۰)