+(00) 123-345-11

مسئلہ یہ ہے کہ میں نے 2003ء سے نوکری شروع کی تنخواہوں کے پیسے میں جمع کرتا رہا اور بی سی بھی ڈال لی جب میرے پاس 30 ہزار روپے جمع ہوئے تو میں نے دو تولہ سونا خرید لیا بی سی جو نکلی وہ 27ہزار روپے کی تھی اس بی سی کے پیسے استعمال کیلئے خرچ بھی ہوتے رہے پھر ایک بی سی اور ڈالی جو ابھی تک چل رہی ہے 88 ہزار روپے کی اس بی سی میں سے 63 ہزار روپے بطور قرض کسی کو دیئے ہوئے ہیں شادی کے وقت میرے پاس 40ہزار روپے اور سونا تھا سونے کی قیمت اس وقت 48ہزار روپے تھی 40ہزار روپے شادی میں خرچ ہو گئے سونا موجود ہے ۔ مجھے صحیح طور سے معلوم نہیں کہ سال گزرنے پر میرے پاس کتنے پیسے تھے یا میں کب صاحب نصاب ہوا معلوم یہ کرنا ہے کہ میرے اوپر زکوٰۃ فرض ہے اور زکوٰۃ کس طرح ادا کروں ابھی میرے پاس ضرورت کے علاوہ کچھ رقم نہیں۔

اصل سوال کے جواب سے پہلے تمہید کے طور پر چند باتوں کا معلوم ہونا ضروری ہے۔

(۱) جس شخص کی ملکیت میں ساڑھے باون تولہ چاندی یا ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر سامان تجارت یا مخلوط اموال زکوٰۃ سونا، چاندی اور نقدی وغیرہ ہوں اوران پر سال گزر جائے تو زکوٰۃ واجب ہو جاتی ہے۔

(۲) زکوٰۃ واجب ہونے کے بعد ہلاک یعنی مال زکوٰۃ ضائع ہو جائے تو زکوٰۃ ساقط ہوجاتی ہے البتہ استھلاک یعنی ضائع کرنے سے زکوٰۃ ساقط نہیں ہوتی جیسے کسی شخص پر زکوٰۃ واجب تھی اور ما ل کو استعما ل کر لیاتو زکا ۃسا قط نہیں ہو گی ،

(۳) جورقم کسی کے پا س بطور قرض کے ہو اس پر زکا ۃ واجب ہو تی ہے بی سی میں چونکہ دوسرے افراد کے پاس رقم قرض ہو تی ہے اس لیئے اگر اس رقم پر سا ل گزر جا ئے تو زکوٰۃ واجب ہوگی۔

(۴) اگر کسی شخص پر زکوٰۃ واجب ہو لیکن یہ معلوم نہ ہو کہ وہ کب صا حب نصا ب ہوا ؟ اور نہ ہی ما لیت کی مقدار معلوم ہو تو اس کا حکم یہ ہے کہ وہ تحری یعنی سوچ و بچار کرے کہ وہ کب صاحب نصاب ہوا تھا اور اس وقت کتنی مالیت تھی پھر اس کے مطابق گذشتہ سالوں کی زکوٰۃ ادا کرے۔

(۵) قیمت کے اعتبار سے زکوٰۃ ادا کرنے کی صورت میں ادائیگی کے دن جو مال زکوٰۃ کی قیمت ہوتی ہے ا س کا اعتبار ہوتا ہے۔

صورت مسئولہ میں مذکورہ بالا تفصیل کو پیش نظر رکھ کر گزشتہ زمانہ کی زکوٰۃ ادا کرنا واجب ہے۔

لما فی ’’الھندیۃ‘‘ : ۔

وان ھلک المال بعد وجوب الزکاۃ سقطت الزکاۃ وفی ہلاک البعض یسقط بقدرہ ولو استھلک النصاب لا یسقط ولو ازال ملک النصاب بعد الحول بغیر عوض صار مستھلکا‘‘ (۱/۱۸۵)

وفی ’’مجمع الأنھر‘‘

فالدین القوی الذی ملکہ بدلا عما ھو مال الزکاۃ کالدراھم - والحکم فیہ عندالامام انہ اذا کان نصا با وتم الحول علیہ تجب الزکاۃ (۱/ ۲۸۹)

وفی ’’الفقہ الاسلامی وادلتہ‘‘ : ۔

فان اخرھا وھو قادر علی ادائھا ضمنھا لانہ اخر ما وجب علیہ مع امکان الاداء کالودیعۃ اذا طالب بھا صاحبھا ویاثم بالتأخیر (۳/۱۸۱۴)

وفیہ ایضا: ۔

و تعتبر القیمۃ یوم الوجوب عندہ وعند الصاحبین یوم الأداء (۳/۱۹۳۷)

وفی ’’المسبوط‘‘ : ۔

کتاب التحری: ۔ فان الاجتھاد فی الاحکام الشرعیۃ جائز للعمل بہ وذلک عمل بغالب الرأی ثم جعل مدرکا من مدارک احکام الشرع و ان کان لایثبت بہ ابتداء فکذلک التحری مدرک من مدارک التوصل الی اداء العبادات وان کانت العبادۃ لا یثبت بہ ابتداء (۱۰/۱۸۶)

فی ’’مجمع الأنھر‘‘ : ۔

وتضم قیمتھا (العروض التی لتجارۃ) الیھما، ویضم احدھما ای النقدین الی الاخر بالقیمۃ، (۱/۳۵۷)