+(00) 123-345-11

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام کہ شاہد نے دو سال قبل دبئی میں ایک پلاٹ کی فروخت کے سلسلہ میں 5500000روپئے عامر کو بھیجے جو خالصتاً کاروبار کے حوالے سے بھیجے گئے تھے۔ جب شاہد اپنی بقایا رقم کی ادائیگی کے سلسلہ میں وہاں پہنچا تو پتہ چلا کہ عامر وہاں جیل میں ہیں اور اب اس کے پاس اب لوگوں کو دینے کے لئے کچھ نہیں بچا۔ سوال یہ ہے کہ یہ رقم بہت بڑی ہے اور اب اس کے ملنے کا بھی کوئی امکان نہیں اور یہ کہ عامر کی رہائی بھی ناممکن ہے جبکہ اب عامر خود کوڑی کوڑی کا محتاج ہے۔ دریافت یہ کرنا ہے کہ کیا ہم اس رقم کو جو کہ اب ہمارے پاس نہیں اور اس کے ملنے کا بھی امکان نہیں کیا ہم اس کو عامر کے حوالے سے زکوٰۃ کی مد میں شمار کرسکتے ہیں۔ اگر کر سکتے ہیں تو ٹھیک اور اگر نہیں تو اس کو کوئی دوسری جائز صورت کیا ہے۔ اور یہ کہ کیا زکوٰۃ کی رقم کسی ٹرسٹ کو دی جاسکتی ہے۔

زکوٰۃ ادا کرتے وقت زکوٰۃ کی نیت اور اس چیز کا موجود ہونا ضروری ہے۔ جو زکوٰۃ میں دی جارہی ہے صورت مسئولہ میں جو رقم خالصتاً کاروبار کے لئے بھیجی گئی تھی اس کو زکوٰۃ کی مد میں شمار کرنا جائز نہیںہے۔ اس رقم میں یا تو عامر پر صدقہ کرنے کی نیت کر لی جائے یا عامر کے رہا ہونے کا انتظار کریں۔ یاد رہے کہ اگر عامر رہا ہونے کے بعد اس رقم کی ادائیگی کردیتا ہے تو اس کی گزشتہ سالوں کی زکوٰۃ ادا کرنا بھی لازم ہوگا۔

زکوٰۃ کسی مستحق کو مالک بنا کر دینا ضروری ہے محض تعمیرات یا تنخواہوں میں زکوٰۃ کی رقم صرف کرنا جائز نہیں ہے۔ لہٰذا اگر ٹرسٹ والے حضرات زکوٰۃ کو اس کے مصرف میں صرف کریں تو ان کو زکوٰۃ دینا جائز ہے۔

لما فی ’’البحر الرائق‘‘ (۵؍۴۴۲)

وشرط ادائھانیۃ مقارنۃ للاداء والأصل اقترانھا بالاداء کسائر العبادات۔ اطلق المقارنۃ فشمل المقارنۃ الحقیقیۃ وھو ظاہر والحکمیۃ کما اذا وقع بلانیۃ ثم حضرتہ النیۃ والمال قائم فی ید الفقیر فانہ یجوز وھو بخلاف ما اذا نوی بعد ھلاکہ۔

وفی ’’الشامیۃ‘‘:

ویشترط ان یکون الصرف تملیکا لا اباحۃ (۲؍۳۳۹)