+(00) 123-345-11

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں گاڑی پر سوار چڑھائی کی طرف جارہا تھا اور ایک موڑ پر اپنے رُخ جاتے ہوئے دوسری جانب سے نیچے کی طرف اترنے والے موٹر سائیکل کو نہ دیکھ سکا۔ موٹر سائیکل سوار اس قدر تیزی میں تھا جو کہ اترائی پر میری گاڑی کے سامنے آگیا اور تیز رفتار موٹر سائیکل میری گاڑی سے ٹکرا گئی جو کہ اترائی کی وجہ سے موڑ پر میری لین میں داخل ہوئی اور میری ڈرائیونگ سیٹ کے سامنے آٹکرائی اور Bounce Backہو کر اپنی لین میں گر گئی۔ واضح رہے کہ موڑ دائیں جانب کو تھا اور نہ ہی میں کسی کو Overtakeکر رہا تھا اور نہ ہی موٹر سائیکل سوار۔ جائے حادثہ کے بائیں جانب کھائی تھی اور میرے دائیں جانب پہاڑ تھا۔ جس کی وجہ سے نہ تو میں موٹر سائیکل کو دیکھ سکا اور نہ ہی شاید وہ گاڑی کو دیکھ سکا ہوگا۔ حتی کہ گاڑی اور موٹر سائیکل آپس میں ٹکرا گئی۔ دوسری وجہ جو مجھے سمجھ میں آئی وہ یہ ہے کہ ایک تو اُترائی پر موٹر سائیکل تیز قابو سے باہر ہو جاتی ہے اور دوسرا بائیں جانب مڑتے ہوئے دائیں طرف نکلتی ہے۔ حادثہ کے بعد موٹر سائیکل سوار ہسپتال میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے خالق حقیقی سے جاملا۔

سوال میں ذکر کردہ صورت سے یہ ظاہر ہو رہا ہے کہ سائل گاڑی پر سوار ٹریفک کے قوانین کی مکمل پابندی کرتے ہوئے نیچے سے چڑھائی کی طرف جا رہا تھا اور اپنی لین میںتھا جبکہ مخالف سمت سے آنے والی تیز رفتار موٹر سائیکل ٹریفک کے قوانین کی مخالفت کرتے ہوئے اپنی لین سے نکل کر دوسری لین میں داخل ہوئی اور ایک موڑ پر گاڑی سے ٹکرا گئی اور تصادم کے نتیجہ میں موٹر سائیکل سوار جاں بحق ہوگیا۔ اگر سائل واقعی ٹریفک کے قوانین کو مدنظر رکھتے ہوئے محتاط انداز سے گاڑی چلا رہا تھا اور وہاں کے قانون کے مطابق مقرر کردہ حد رفتار کی پابندی کر رہا تھا۔ اور سائل کی طرف سے کسی قسم کی بے احتیاطی نہیں پائی گئی۔ اور نہ ہی مخالف سمت سے آنے والی تیز رفتار موٹر سائیکل کو ایسے وقت اور فاصلہ سے دیکھ سکا کہ اس کو بچانے کی مکمل کوشش کے باوجود بچانا ممکن ہوتا تو ایسی صورت میں گاڑی سوار کے ذمہ کوئی دیت وتاوان لازم نہیں ہے کیونکہ گاڑی کے ڈرائیور کی مکمل احتیاط کے باوجود موٹر سائیکل سوار اپنی ایسی غلطی کی وجہ سے جاں بحق ہوا ہے جس کا ازالہ گاڑی کے ڈرائیور کے لئے ممکن نہ تھا جیسا کہ سوال سے ظاہر ہے البتہ مقتول کے ورثاء کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے تعاون کرنا اللہ کے ہاں اجر اور ثوابِ عظیم کا باعث ہوگا۔

واضح رہے کہ جواب کی یہ تفصیل اس صورت میں ہے جبکہ سوال میں ذکر کردہ سائل کا بیان درست اور حقیقت پر مبنی ہو لیکن اگر سائل کی طرف سے ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی یا بے احتیاطی کا مظاہرہ ہوا ہو تو جواب مختلف ہوگا اور اس صورت میں دوبارہ مکمل صورتِ حال لکھ کر سوال کیا جائے۔

اذا ساق انسان سی ارۃ فی شارع عام ملتزما السرعۃ المقررۃ، ومتبعا خط السیر حسب النظام، ومتبصرا فی سوقہ حسب قواعد المرور، فقفز رجل امامہ فجأۃ فصدمتہ السیارۃ رغم قیام السائق بما وجب علیہ من الفر ملۃ ونحوھا فان اللجنۃ الدائمۃ للبحوث والافتاء فی المملکۃ العربیۃ السعودیۃ ابدت فی ھذہ الصورۃ احتمالات مختلفۃ ولم تبت فیھا بشئی ۔ والذی یظھر لی فی ھذہ الصورۃ واللہ سبحانہ أعلم ان الرجل الذی قفز امام السیارۃ ان قفز بقرب منھا بحیث لا یمکن للسیارۃ فی سیرھا المعتاد فی مثل ذلک المکان ان تتوقف بالفرملۃ، وکان قفزہ فج أۃ لا یتوقع مسبقا لدی سائق متبصر محتاط، فان ھلاکہ او ضررہ فی مثل ھذہ الصورۃ لا ینسب الی سائق السیارۃ ولا یقال انہ باشر الاتلاف، فلا یضمن السائق، ویصیر القافز مسببا لھلاک نفسہ۔

(بحوث فی قضایا فقھیۃ معاصرۃ لشیخ مفتی محمد تقی عثمانی حفظہ اللہ تعالیٰ۔ (۳۱۵۔ ۳۱۶)