+(00) 123-345-11

میری بیوی نے شادی سے پہلے حج کیا تھا اُس سے اور اُنکے گھر والوں سے دو بڑی غلطیاں ہوئیں تھیں۔

۱۔ شیطان کو کنکریاں مارنے کے لئے نماز فجر سے پہلے روانہ ہوئے اور وہاں پہنچنے پر نمازِ فجر بھی قضاہوگئی۔

۲۔احرام کو کھولنے کے بعد انہوں نے بال کٹوائے۔ان دو غلطیوں پر انہوں نے دم تو دیا ہے لیکن معلوم کرنا ہے کہ حج ہوگیا ہے یا نہیں۔ کیونکہ اس سال میں نے حج کرنے کی نیت کی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ میری ماںجو وفات پاچکی ہیں ان کا حج بدل میری بیوی کر ے۔نیز عورت (میری بیوی) اپنے سر کے بال کتنے چھوٹے کرسکتی ہے؟ چہرے پر جو بال آجاتے ہیں اُسے صاف کر سکتی ہے؟ اوپر کے ہونٹ پر جو بال آجاتے ہیں اُسے صاف کر سکتی ہے؟ اسی طرح بھنوئوں کے اردگرد کے بال صاف کرسکتی ہے؟

اصل سوال کے جواب سے پہلے تمہید کے طور پر دو باتوں کا جاننا ضروری ہے۔

۱۔ وقوف مزدلفہ واجب ہے۔ اس کے چھوڑنے سے دم واجب ہوتا ہے البتہ عورت، بوڑھے اور ضعیف حضرات کسی عذر مثلاً ہجوم وغیرہ کی وجہ سے اس کو چھوڑ دیں اور سیدھے منیٰ چلے جائیں تو گنجائش ہے اور ان پر دم بھی واجب نہیں ہے۔

۲۔حلق ؍ قصر سے قبل احرام کھول دینے اور احرام کی پابندیاں توڑنے سے دم واجب ہوتا ہے حج فاسد نہیں ہوتا۔ لہٰذا صورت مسئولہ میں آپ کی بیگم کا حج ادا ہو گیا ہے اور والدہ کی طرف سے حج بدل ادا کر سکتی ہیں۔

عورتوں کے لئے سر کے بال کٹوانا جائز نہیں ہے۔ البتہ شرعی ضرورت کی وجہ سے بقدر ضرورت کٹوانا جائز ہے۔ حضرت مولانا ظفر احمد عثمانی ؒ فرماتے ہیں عورتیں بوقت ضرورت اپنے بالوں کو کتر کر کسی قدر کم کر سکتی ہیں چنانچہ حج میں عورتوں کے لئے انگلی کے پورے کے برابر کٹوانا جائز ہے بلکہ تحلّل (حلال ہونے کے لئے) ضروری ہے۔

چہرے کے بال اور اسی طرح ہونٹ کے اوپر کے بال خاوند کی خوشنودی کے لئے صاف کرنا مستحب ہیں۔ حدیث پاک میں ہے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا سے ایک عورت نے سوال کیا کہ میرے چہرے پر بعض اوقات کچھ بال ہوتے ہیں تو میں کیا خاوند کے لئے مزین بننے کی خاطر انہیں اکھیڑ سکتی ہوں تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا نے فرمایا ’’ امیطی عنک الاذیٰ وتصنعی لزوجک‘‘یعنی اپنے چہرے سے بدنمائی زائل کرو اور اپنے خاوند کے لئے بن سنور کر رہو۔ (مصنف : ۳؍۱۴۶)

البتہ بھنوؤں کے بال اکھیڑنا جائز نہیں ہے۔

کما فی فتح الباری:

لعن عبداللہ الواشمات والمتنمصات الخ (۵۹۳۱)

قال فی شرحہ: (المتنمصات) جمع متنمصۃ قال ابوداؤد فی السنن: النامصۃ التی تنقش الحاجب حتی ترفہ ۔ وقال النووی: اذا تمت للمرأۃ لحیۃ او شارب او عنقہ فلا یحرم علیھا ازالتھا بل یستحب۔ (کتاب اللباس : ۵؍۴۶۲ : رشیدیہ)

وفی الشامیۃ:

قولہ (النامصۃ) فلو کان فی وجھھا شعر ینفر زوجھا عنھا بسببہ ففی تحریم ازالتہ بعد، لان الزینۃ للنساء مطلوبۃ للتحسین، الا ان یحمل علی ما لا ضرورۃ الیہ ۔ وفی تبیین المحارم ازالۃ الشعر من الوجہ حرام الا اذا نبت للمرأۃ لحیۃ او شعر ۔ فلا تحرم ازالتہ بل یستحب وفی التاتارخانیہ : ولا بأس باخذ الحاجبین وشعر وجھہ ما لم یشبہ المخنت ۔

(فصل فی النظر والمسں : ۶؍۳۷۳ : سعید)

وفی بدائع الصنائع:

واما حکم تاخیرہ (الحلق) عن زمانہ ومکانہ فوجوب الدم عند ابی حنیفۃ وابی یوسف ۔(کتاب الحج : ۲؍۱۴۲ : بیروت)

وفیہ ایضا:

والحلق ۔ واذا کان واجبا فان ترکہ لعذر فلا شئی علیہ وان ترکہ بغیر عذر لزمہ دم

وفی غنیۃ الناسک:

ولو ترک الوقوف بمزدلفۃ بلا عذر لزم دم وان ترکہ بعذر بان کان علۃ او ضعیف او کانت امرأہ تحاف الزحام فلا شئی علیہ۔ (۲۷۹)