+(00) 123-345-11

کیا مرحوم کو اہل خانہ سے جدائی کا صدمہ ہوتا ہے؟

جب آدمی مر جاتا ہے تو اس کو اپنے مرنے کا پتہ لگ جاتا ہے بلکہ مرنے سے پہلے جب ملائکۃ رحمت یا ملائکۃ عذاب اس کے پاس آتے ہیں اور وہ اپنی موت کو آنکھوں کے سامنے دیکھتا ہے تو اس وقت ہی موت کا اندازہ ہو جاتا ہے مرنے کے بعد میت کو جدائی کا صدمہ ہونے نہ ہونے کے بارے میں احادیث میں صراحتاً کوئی تفصیل نہیں ملی ، حدیثوں میں اس قدر آیا ہے کہ کہ میت اگر نیک ہو تو اس کو جنت کی بشارت دی جاتی ہے اور اس وقت اٹھانے والے سے میت کا یہ تقاضا ہوتا ہے کہ مجھے جلدی لے جا کر دفن کر دیا جائے میت اس وقت اللہ تعالیٰ کے دربار میں حاضری کی مشتاق ہوتی ہے اور پھر وہاں جب اپنے سے پہلے جانے والے عزیز واقارب سے ملاقات ہوتی ہے تو بہت خوش ہوتی ہے اور اگر میت نے دنیا میں برے اعمال کیے ہوں تو اس کو جہنم کے عذاب کی وعید سنائی جاتی ہے اس وقت وہ اللہ تعالیٰ کے دربار میں حاضر ہونے سے گریزاں ہوتی ہے اور اپنے اٹھانے والے سے اس کا تقاضا کرتی ہے کہ مجھے یہیں رکھو قبر کی طرف نہ لے جاؤ۔

من احب لقاء اللہ احب اللہ لقاء ہ ومن کرہ لقاء اللہ کرہ اللہ لقائہ قالت فقلت یا رسول اللہ کلنایکرہ الموت قال لیس کذلک ولکن المؤمن اذا بشر برحمۃ اللہ ورضوانہ و جنۃ احب لقاء اللہ واحب اللہ لقائہ وان الکافر اذا بشر بعذاب اللہ وسخطہ کرہ لقاء اللہ وکرہ اللہ لقائہ ترمذی /۱:۲۰۵) اخرج ابوالحسن ابن البراء فی کتاب الروضۃ بسند ضیعف عن ابن عباس رضی اللہ عنہما عن النبی ﷺ قال ما من میت یموت الا و ھو یعرف غاسلہ وینا شد حاملہ ان کان بشر بروح وریحان وجنۃ نعیم ان یعجلہ وان کان بشر بنزل من حمیم وتصلیۃ جحیم ان یحبسہ (شرح الصدور/ ۳۹) أخرج ابن ابی الدنیا عن ثابت البنانی انہ قال : بلغنا ان المیت اذا مات احترشہ اھلہ واقاربہ الذین قد تقدموہ من الموتیٰ فلھو افرح بھم ولھم افرح بہ من المسافر اذا قدم الیٰ اھلہ (شرح الصدور/ ۳۸)