+(00) 123-345-11

یوسف کذاب کے پیروکار زید زمان کے بارے میں ایک شخص نے یہ دعوٰی کیا ہے کہ مذکورہ شخص سچا عاشق رسول ہے کیونکہ زید زمان ہر سال مدینہ جاتا ہے حالانکہ توہین رسالت کرنے والا کوئی شخص مسجد نبوی میں قدم نہیں رکھ سکتا کیونکہ وہاں روحانی شخصیات اور فرشتوں کا پہرہ ہے جو غلط آدمی کو اُٹھا کر باہر پھینک دیتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مدینہ منورہ کے راستوں پر فرشتے متعین ہیں یہاں نہ تو طاعون آسکتا ہے اور نہ ہی دجال داخل ہو سکتا ہے(مؤطا امام مالک) اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے ایک قصبہ میں بھیجا گیا ہے جو قصبوں کو کھا جائے گا جس کو لوگ یثرب کہتے ہیں لیکن یہ مدینہ ہے یہ برے لوگوں کو نکال دیتا ہے جیسا کہ بھٹی لوہے کے زنگ کو ختم کرتی ہے(بخاری شریف)۔ موصوف کا کہنا تھا کہ جب زید حامد مدینہ منورہ میں گیا تو اس کے ہمراہ بابا صالح شریف بھی تھے اور باقر عمر بلالی بھی تھے جو مسجد نبوی میں مقیم اور صاحبِ نظر بزرگ ہیں اگر زید زمان غلط آدمی ہوتا تو یہ بزرگ اس کو کبھی وہاں نہ آنے دیتے۔ مذکورہ تحریر میں اسی بات کا تفصیلی جواب ہے کہ آیا مدینہ میں داخل ہونے کی وجہ سے کسی شخص کو سچا سمجھا جا سکتا ہے یا نہیں؟ اور کیا معیارِ صداقت یہ ہے یا کچھ اور ہے؟

کسی شخص کے صادق یا کاذب ہونے کا معیار یہ ہے کہ اس کے اقوال اور اس کی باتوں کو قرآن و سنت کی کسوٹی پر پرکھا جائے۔ اگر اس کے نظریات و اقوال ان کے موافق ہوں تو یہ شخص سچا ہے اور اگر ان کے مخالف ہوں تو مذکورہ شخص جھوٹا ہے۔ یہ وہ اصول ہے جس پر ہر دور اور زمانہ کے لوگوں کے صدق اور کذب کو پرکھا جا سکتا ہے اور یہ معیار مضبوط و محفوظ معیار ہے۔ چودہ سو سال تک اسی معیار کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اسلافِ امت دینِ حق کی ترجمانی اور باطل فتنوں کی سرکوبی کرتے رہے ہیں۔ اسی طرح آج کے دور میں بھی جب کسی فتنہ نے سر اٹھایا تو اس کی تردید میں علماء کرام نے قرآن وسنت کے دلائل جمع کئے اور اس کی کذب بیانی کو واضح کرکے امت کو اس کے فتنہ سے بچالیا۔

جہاں علماء کرام کی مذکورہ خدمات کا سلسلہ ۱۴ صدیاں قبل دورصحابہ سے ملتا ہے وہاں فتنوں کی تاریخ بھی اتنی ہی قدیم ہے۔ بلکہ فتنہ پرور لوگوں کی طرف سے مزعومہ دلائل میں بھی قدرمشترک ایک جیسا اندازِ استدلال نظر آتا ہے۔ چنانچہ زید حامد صاحب کے ایک چاہنے والے کی طرف سے جو ایک ای میل موصول ہوئی ہے اس میں مذکورہ شخص کی تائید کیلئے یہ فرمایا گیا ہے کہ زید حامد صاحب کو مدینہ کی حاضری نصیب ہوئی ہے اگر مذکورہ شخص غلط ہوتا تو اسے مدینہ کی حاضری کی سعادت نصیب نہ ہوتی کیونکہ مدینہ میں کوئی غلط آدمی قدم نہیں رکھ سکتا۔

مذکورہ بات میں انتہائی تلبیس کی شکل اختیار کی گئی ہے۔ ہم اس کا تجزیہ کرنے سے قبل حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کے ایک جھوٹے شخص کی اس سے ملتی جلتی بات قارئین کو سنانا چاہیں گے جو شخص مدینہ کا رہائشی تھا اور جس شخص کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور بعض صحابہ کرام کو شک تھا کہ مذکورہ شخص ہی وہ دجال ہے جس کا ظہور آخری زمانہ میں ہونے والا ہے جبکہ بعض صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنھم بڑے وثوق سے کہتے تھے کہ یہی وہ شخص ہے جو آخر زمانہ میں دجال کی صورت میں ظہور کرے گااور دنیا اس کے فتنے میں مبتلا ہوگی۔

چنانچہ ابو داؤد میں منقول ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے بیٹے عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ اس جھوٹے شخص ابن صیاد کے متعلق قسم اٹھا کر فرماتے تھے۔

وَاللّٰہِ مَا اَشُکُّ اَنَّ الْمَسِیْحَ الدَّجَّالَ اِبْنُ صَیَّادٍ(ابوداؤد:حدیث ۴۳۳۰)

ترجمہ : اللہ کی قسم مجھے اس بات میں ادنی شک نہیں کہ مسیح دجال ابن صیاد ہی ہے۔

اسی شخص کے بارے میں ایک دوسرے صحابی حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے۔

عن محمد بن المنکدر قال رأیت جابر بن عبد اللہ یحلف باللہ ان ابن صیاد الدجال فقلت تحلف باللہ؟ فقال انی سمعت عمرؓ یحلف باللہ تعالی علی ذلک عند رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فلم ینکرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔

(ابوداؤد: حدیث ۴۳۳۲)

ترجمہ: محمد بن منکدر فرماتے ہیں کہ میں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ کو دیکھا وہ قسم اٹھا کرفرماتے تھے کہ ابن صیاد ہی دجال ہے میں نے عرض کیا کہ آپ کیسے قسم اٹھاتے ہیں؟ تو انہوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس بات پر اللہ کی قسم اٹھاتے ہوئے سنا ہے جب کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اس قسم سے منع نہیں فرمایا۔

مذکورہ روایات سے اس شخص کی حالت کا قدرے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ جھوٹا اور کذاب انسان تھا بلکہ اس کے بارے میں لوگوں کی یہ رائے تھی کہ یہ شخص ہی مسیح دجال ہے جس کا ظہور آخر زمانہ میں ہونے والا ہے اور اس شخص کو بھی یہ معلوم تھا کہ لوگ اس کو بہت غلط سمجھتے ہیں اور اس کے بارے میں مسیح دجال ہونے کے قائل ہیں۔ مذکورہ شخص مختلف مواقع پر اپنے کذاب اور دجال ہونے کی نفی کرتا ہے اور اس کے متعلق جو باتیں بناتا ہے وہ بالکل اسی جیسی باتیں ہیں جو زید حامد صاحب کے چاہنے والے ان کے بارے میں کہہ رہے ہیں، چنانچہ ہم ترمذی شریف کی ایک حدیث متن اور اس کے ترجمہ کے ساتھ پیش کرتے ہیں جس سے قارئین کے سامنے جھوٹے ابن صیاد اور زید حامد کی تائید میں کہی گئی باتوں میں مماثلت واضح ہوگی۔

عن ابی سعید رضی اللہ تعالی عنہ قال صحبنی ابن صیاد اما حجاجا واما معتمرین فانطلق الناس وترکت انا وھو فلما خلصت بہ اقشعررت منہ و استوحشت منہ مما یقول الناس فیہ فلما نزلت قلت لہ ضع متاعک حیث تلک الشجرۃ قال فابصر غنما فاخذ القدح فانطلق فاستحلب ثم اتانی بلبن فقال لی یا ابا سعید اشرب فکرھت ان اشرب عن یدہ شیئا لما یقول الناس فیہ فقلت لہ ھذا الیوم یوم صائف وانی اکرہ فیہ اللبن فقال لی یا ابا سعید لقد ھممت ان اخذ حبلا فاوثقہ الی الشجرۃ ثم اختنق لما یقول الناس لی وفیّ ارأیت من خفی علیہ حدیثی فلن یخفی علیکم انتم اعلم الناس بحدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا معشر الانصار الم یقل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہ کافر وانا مسلم۔ الم یقل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہ عقیم لا یولد لہ وقد خلفت ولدی بالمدینۃ۔ الم یقل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لا یدخل اولا یحل لہ مکۃ والمدینۃ۔ الست من اھل المدینۃ وھو ذا انطلق معک الی مکۃ قال فواللہ مازال یجیء بھذا حتی قلت فلعلہ مکذوب علیہ ثم قال یا ابا سعید واللہ لا خبرنک خبرا حقا واللہ انی لا عرفہ واعرف والدہ واعرف این ہو الساعۃ من الارض فقلت تباً لک سائر الیوم۔(ترمذی :حدیث ۲۲۴۶)

ترجمہ: حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سفر حج یا سفرِ عمر ہ میں ابن صیاد میرے ساتھ تھا، لوگ آگے نکل گئے، میں اور وہ (ابن صیاد) تنہا رہ گئے، اس کے ساتھ اس تنہائی سے مجھے گھبراہٹ ہونے لگی اور اس کے بارے میں لوگوں کی باتوں کی وجہ سے مجھے اس سے وحشت ہونے لگی۔ ہم جب ایک مقام پر اُترے تو میں نے اسے کہا کہ اپنا سامان فلاں درخت کے پاس رکھ آؤ۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ابن صیاد نے کچھ بکریاں دیکھیں، پیالہ پکڑ کر گیا، ان کا دودھ دوہا اور میرے پاس دودھ لیکر آیا اور کہنے لگا۔ اے ابو سعید اسے پی لو، میں اس کے ہاتھ سے کوئی چیز پینا نہیں چاہتا تھا کیونکہ لوگ اس کے بارے میں مختلف باتیں کرتے تھے۔ میں نے اس کے سامنے یہ عذر کیا آج بڑا گرم دن ہے اور میں آج دودھ نہیں پینا چاہتا۔ ابن صیاد نے مجھے کہا۔ اے ابو سعید میں اپنے بارے میں لوگوں کی باتوں سے اس قدر تنگ آچکا ہوں کہ میں سوچتا ہوں درخت کے ساتھ رسہ لٹکا کر اس میں پھانسی لے لوں۔ جس شخص پر میری بات مخفی رہتی ہے اُسے چھوڑ دو، لیکن تم پر تو مخفی نہیں رہ سکتی کیونکہ تم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کو سب سے زیادہ جانتے ہو۔ اے انصار کی جماعت! کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق یہ نہیں فرمایا کہ وہ بانجھ ہے جس کے اولاد نہ ہوگی؟ اور میں اپنے بچے مدینہ میں چھوڑ کر آیا ہوں۔ اور کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق یہ نہیں فرمایا کہ وہ مکہ اور مدینہ میں داخل نہیں ہوسکتا؟ اور میں مدینہ کا باشندہ ہوں اور آپ کے ساتھ مکہ جارہا ہوں۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ وہ مجھے مسلسل ایسی باتیں سناتا رہا جس سے مجھے گمان ہونے لگا کہ ابن صیاد کے بارے میں لوگوں کی تمام باتیں غلط ہیں۔ لیکن ساتھ ہی ابن صیاد بولا۔ اے ابو سعید! اللہ کی قسم میں آپ سے سچی بات کہوں گا۔ اللہ کی قسم میں اس (دجال) کو پہچانتا ہوں اور اس کے والد کو بھی پہچانتا ہوں اور مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ وہ اس وقت کس جگہ پر ہے۔ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے اسے کہا تو تباہ ہوجائے ہمیشہ کے لئے۔

مندرجہ بالا حدیث میں یہودی لڑکے ابن صیاد نے جسے لوگ دجال سمجھتے تھے اپنی برأت ظاہر کرنے کے لئے حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کے سامنے جو باتیں پیش کیں ان میں سے ایک بات یہ تھی کہ دجال کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ مکہ اور مدینہ میں داخل نہیں ہوسکتا اور میں مدینہ سے آرہا ہوں اور مکہ جارہا ہوں۔ لہذا میں کیسے دجال ہو سکتا ہوں۔ اسی طرح زید حامد صاحب کے ماننے والے ان کے بارے میں ایسا ہی مغالطہ پیش کرتے ہیں کہ اگر وہ جھوٹے اور غلط ہوتے تو انہیں مدینہ کی حاضری ہرگز نصیب نہ ہوتی۔

بات یہ ہے کہ مکہ اور مدینہ میں داخل ہونا یا نہ داخل ہونا کسی دور میں صدق و کذب کا معیار نہیں رہا اور قرآن میں نہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان میں اس کو کسی کے سچا یا جھوٹا ہونے کے لئے معیار قرار دیا گیا ہے کہ جو شخص مکہ میں آجائے یا مدینہ میں داخل ہوجائے تو اس کو سچا سمجھا جائے، بلکہ اس کے برعکس یہ بات حدیث سے ثابت ہے کہ جھوٹے انسان نے اپنے آپ کو سچا ظاہر کرنے کے لئے مکہ اور مدینہ میں جانے کودلیل کے طور پر پیش کیا ہے۔ بہتر یہ تھا کہ زید حامد صاحب کے چاہنے والے ان کی سچائی ظاہر کرنے کے لئے مدینہ میں داخل ہونے کو دلیل کے طور پر پیش نہ کرتے کیونکہ اس طرح کے استدلال سے انکی مماثلت ابن صیاد جھوٹے شخص کے ساتھ زیادہ نمایاں ہو جاتی ہے۔ ان کی سچائی کے لئے اتنا ہی کافی تھا کہ وہ جھوٹے لوگوں سے اپنا تعلق توڑیں اور ان کے جھوٹ پر لعنت بھیجیں اور سچائی کا ساتھ دیں، تو ہم سب اُنہیں سچا سمجھ لیں گے۔

تاریخ اسلامی کے اَن گنت ایسے واقعات ہیں جن کے مطابق جھوٹے اور منافق لوگ بھی مدینہ میں نہ صرف داخل ہوئے بلکہ رہائش پذیر ہوئے ہیں، چنانچہ رئیس المنافقین عبداللہ بن اُبی جس کے متعلق قرآن کریم کی متعدد آیات نازل ہوئیں اور اس کے نفاق کا پردہ چاق کیا ساری زندگی مدینہ منورہ میں رہا اور مدینہ ہی میں مرا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قمیص مبارک میں اس کو کفن دیا گیا۔ تو کیا ایسے شخص کو صحیح انسان سمجھ لیا جائے صرف اس وجہ سے کہ وہ مدینہ میں رہتا رہا ہے اور مدینہ میں اس کی موت واقع ہوئی ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قمیص مبارک میں کفن دیا گیا ہے؟

اسی طرح بعض منافقین حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں آکر بیٹھا کرتے تھے اور آپ کے پاس اپنے ایماندار ہونے کا جھوٹا اقرار کیا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے حالات کو سورۃ المنافقون میں تفصیلاً بیان فرمایا ہے ۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ منافق لوگ مدینہ میں بلکہ مسجد نبوی میں داخل ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس تک پہنچ جاتے تھے اور دیر تک گفت وشنید کرتے رہتے تھے ایک تو یہ لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وقت ضائع کرتے تھے اور دوسرا اپنے آپ کو خالص مومن ظاہر کرنے کے لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دیر تک مشورہ کرتے رہتے تھے۔ (دیکھئے سورۃ المجادلہ کے آخری دو رکوعات کی تفسیر)

ان سطور سے اتنا واضح ہوگیا کہ سابقہ زمانوں کے منافقین اور غلط لوگ بھی مدینہ کے داخلہ اور حاضری کو اپنی صداقت کی دلیل کے طور پر پیش کرتے رہے ہیںجیسا کہ زید حامد کے متبعین نے بھی اس چال کو اپنایا ہے نیز یہ بھی واضح ہوا کہ اس داخلہ اور حاضری سے زید حامد صاحب کی صداقت کا کوئی ثبوت نہیں ملتا جیسا کہ منافقین کے مدینہ میں رہنے سے ان کا مؤمن اور سچا ہونا ثابت نہیں ہوتا۔

اب زید حامد صاحب کے چاہنے والوں کی طرف سے پیش کردہ مزعومہ دلائل کا جائزہ لیتے ہیں۔

چنانچہ موصوف مؤطا امام مالک سے ایک حدیث نقل فرماتے ہیں:

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مدینہ کے راستوں پر فرشتے متعین ہیں، یہاں نہ طاعون داخل ہو سکتا ہے اور نہ ہی دجال آسکتا ہے۔ (مؤطا امام مالک)

مذکورہ حدیث کو ذکرکرنے کے بعد موصوف تحریر فرماتے ہیں:

مذکورہ حدیث کی روشنی میں کیا آپ مان لیں گے کہ کذاب یا مرتد مسجد نبوی تک پہنچ پائے گا؟ ایسے آدمی کو اُٹھا کے باہر پھینک دیا جائے گااگر وہاں پر موجود پولیس نہیں تو روحانی طاقتیں مثلاً فرشتے اللہ کے حکم سے ایسے گندے آدمی کو کبھی مدینہ پاک کی سرزمین میں داخل نہیں ہونے دیں گے الخ۔

مذکورہ حدیث صحیح حدیث ہے اور اس میں طاعون اور دجال کے مدینہ میں داخل نہ ہونے کا ذکر ہے، ہم زید زمان صاحب کو نہ تو طاعون قرار دیتے ہیں اور نہ دجال موعود سمجھتے ہیں۔ اگر ہم انہیں طاعون قرار دیتے یا دجال موعود مانتے تو آپ کو حق حاصل تھا کہ زید حامد صاحب کی برأت ثابت کرنے کے لئے آپ درج بالا حدیث سے استدلال کرتے۔

موصوف نے اس حدیث کی من مانی تشریح کرتے ہوئے تحریر فرمایا ہے کہ:

کذاب اور مرتد مسجد نبوی تک نہیں پہنچ سکتا وہاں پر موجود پولیس مین یا فرشتے ایسے شخص کو اُٹھا کر باہر پھینک دیں گے۔ الخ

جبکہ حدیث میں صرف دو چیزوں کا ذکر ہے (۱) طاعون (۲) دجال۔ یہ بات واضح ہے کہ طاعون کی وباء سے اللہ تعالیٰ نے مدینہ منورہ کو حفاظت بخشی ہے اور آج تک وہاں طاعون کی وباء نہیں پھیلی۔

علامہ سمہودی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :

یہ بات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دائمی اور عظیم معجزات میں سے ہے جو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی دلیل بھی ہے کیونکہ زمانہ بھر کے حکماء اور اطباء جمع ہو کر علاقوں کو طاعون سے پاک رکھنے سے عاجز آگئے ہیں لیکن ان طویل زمانوں میں مدینہ منورہ سے طاعون خود ہی دور رہا ہے جبکہ حجاز مقدس، ینبع کی بستی، جدہ، فرع، صفراء اور خیف وغیرہ کے مقامات جو مدینہ کے نزدیک ہیں طاعون زدہ ہوجاتے ہیں لیکن مدینہ منورہ محفوظ رہتا جیسا کہ آٹھ سو اکیاسی سن ہجری کے اواخر اور بعد کے ایام میں طاعون پڑا تو مدینہ منورہ کے قرب و جوار کے اکثر مقامات اور جدہ اس کی لپیٹ میں آئے مگر مدینہ منورہ محفوظ رہا الخ (وفاء الوفاء باخبار دارالمصطفیٰ ج:۱ ص: ۴۷)

اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق ہمارا ایمان ہے کہ دجال مدینہ منورہ کی سرزمین میں داخل نہیں ہوسکتا اور دجال کو روکنے کے لئے اللہ کی طرف سے فرشتے مامور ہوں گے جو اس کو مدینہ منورہ میں داخل نہیں ہونے دیں گے ایک حدیث میں اس کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد منقول ہے:

یا اھل المدینۃ اذکروا یوم الخلاص قالوا ومایوم الخلاص قال یقبل الدجال حتی ینزل بذباب فلایبقی فی المدینۃ مشرک ولامشرکۃ ولا کافر ولا کافرۃ ولا منافق ولا منافقۃ ولا فاسق ولا فاسقۃ الا خرج الیہ ویخلص المؤمنون فذلک یوم الخلاص۔ (رواہ الطبرانی بحوالہ وفاء الوفاء ج:۱ ص:۴۳)

ترجمہ: حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اے مدینہ کے رہنے والو خلاصی پانے کے دن کو پیش نظر رکھو۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم عرض کرنے لگے، خلاصی پانے کا دن کون سا ہے؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا دجال آئے گا یہاں تک کہ وہ ذباب کے مقام پر قیام کرے گا، اور مدینہ میں رہنے والا ہر مشرک مرد اور مشرک عورت کافر مرد اور کافر عورت منافق مرد اور منافق عورت، اور گناہگار مرد اور گناہگار عورت سب نکل کر اس کے پاس چلے جائیں گے اور پیچھے خالص مومن رہ جائیں گے۔ تو یہ ہوگا خلاصی پانے کا دن۔

مذکورہ بالا حدیث سے ایک طرف یہ بات معلوم ہوئی کہ دجال مدینہ طیبہ میں داخل نہیں ہوسکتا دوسری بات یہ واضح ہوئی کہ دجال سے قبل کچھ کافر، مشرک، منافق اور بدکار لوگ مدینہ میں موجود ہوں گے جو زلزلہ آنے کے بعد مدینہ سے باہر نکل کر دجال کے لشکر میں شامل ہوجائیں گے۔

حدیث میں اس بات کی وضاحت نہیں کہ یہ کافر، مشرک، منافق اور گمراہ لوگ مدینہ کے رہائشی باشندے ہوں گے یا زید زمان کی طرح مدینہ میں کچھ دیرکے لئے آئے ہوں گے اور پھر دجال کے لشکر میں شامل ہو جائیں گے۔ اس حدیث سے صراحۃً معلوم ہوا کہ مدینہ منورہ میں کافر ومشرک اور منافق و گمراہ لوگ رہائش پذیر بھی ہو سکتے ہیںاور کچھ دیر قیام کے لئے بھی داخل ہو سکتے ہیں اور کافر و مشرک اور گمراہ و منافق لوگوں کے مدینہ میں داخل ہونے یا رہائش پذیر ہونے سے لازم نہیں آتا کہ انکو صحیح سمجھ لیا جائے اور ان کا کفر و شرک اور نفاق و گمراہی بُرا نہ رہے اور نہ ان کافر اور گمراہ لوگوں کو یہ حق ہوگا کہ وہ اپنے آپ کو سچا ثابت کرنے کے لئے یہ حیلے جوڑنے لگ جائیں کہ ہم تو مدینہ میں رہتے تھے یا ہم مدینہ میں داخل ہوئے تھے لہذا ہم کیسے غلط ہو سکتے ہیں؟ کیونکہ مدینہ منورہ میں رہنا یا وہاں داخل ہو جانا کسی کے مؤمن ہونے کی گارنٹی نہیں ہو سکتا، ہاں اگر کوئی شخص سچا مؤمن بن کر مدینہ منورہ میں داخل ہوتا ہے تو مدینہ منورہ کی مُنور فضا اس کے ایمان کو مزید تازہ رکھے گی اور اگر کوئی گمراہ شخص مدینہ منورہ میں قدم رکھتا ہے تو جب تک وہ اپنے غلط اور کفریہ عقائد سے توبہ نہیں کرے گا اس وقت تک وہ مدینہ منورہ میں قیام کے باوجود گمراہ ہی رہے گا۔ اور مدینہ اپنے اندر سے گمراہ لوگوں کو اس وقت باہر نکالے گا جب ان لوگوں کا دوست یعنی دجال موعود مدینہ کے باہر آکر کھڑا ہو جائیگا اور مدینہ کی سرزمین زلزلہ کے بعد بالکل پاک اور صاف ہو جائے گی۔ اگر دجال کی آمد اور مدینہ منورہ سے باہر کھڑے ہونے کے وقت میں زید زمان صاحب مدینہ منورہ میں قیام پذیر گمراہ لوگوں کے ساتھ موجود ہوں اور دجال کی جانب نہ نکلیں تو حدیث بالا کے پیشِ نظر وہ سچے ثابت ہو سکتے ہیں باقی دجال سے قبل مدینہ میں ان کی آمد و رفت کے لگے رہنے سے یا وہاں پر قیام پذیر ہونے سے ان کے سچا ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔

موصوف کی ذکر کردہ پہلی روایت کا معنیٰ و مطلب واضح ہو گیا جس سے ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ موصوف نے حدیث کا معنی بدلنے کی اور اس کو غلط انداز سے پیش کرنے کی مذموم کوشش کی ہے اور یہ طریقہ غلط کار لوگوں کا شروع سے چلا آرہا ہے کہ اپنے فاسد خیالات کو ثابت کرنے کے لئے بہت سی قرآنی آیات اور صحیح روایات کا انکار کر جاتے ہیں اور بہت سی روایات کا غلط معنی اخذ کر کے اپنے فاسد نظریات کو ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں زید حامد صاحب کے چاہنے والوں نے بھی ان کے حق میں اسی طریقہ کارکو پیش نظر رکھا ہے جس سے ان کی حیثیت مزید مشکوک ہو جاتی ہے۔

موصوف نے زید حامد صاحب کو سچا ثابت کرنے کے لئے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی ایک روایت پیش کی ہے جس کا عربی متن ہم اصل ماخذ سے ذکرکرتے ہیں۔

عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : اُمِرْت بقریۃ تأکل القرٰی یقولون یثرب وھی المدینۃ تنفی الناس کما ینفی الکیرخبث الحدید (بخاری شریف : ۱۸۷۱)

ترجمہ:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا مجھے ایک ایسی بستی میں جانے کا حکم دیا گیا جو تمام بستیوں کو کھا جائے گی لوگ اس کو یثرب کہتے ہیں اور وہ مدینہ ہے، مدینہ اپنے اندر سے (غلط) لوگوں کو ایسے باہر نکالتا ہے جیسے بھٹی لوہے کے زنگ کو ختم کرتی ہے۔

مذکورہ حدیث کو ذکر کرنے کے بعد موصوف لکھتے ہیں:

مدینہ شہر جو کہ فرشتوں کی حفاظت میں ہے اس کے اندر طاعون، بیماری، گندگی، مرتد اور کافر دجال اور بُرے لوگ نہیں جاسکتے جبکہ ماشاء اللہ صرف ایک ہفتہ قبل سید زید زمان حامد عشاقِ رسول سمیت وہاں گیا چونکہ اسے وہاں بلایا گیا تھا۔ الخ۔

مذکورہ حدیث کا صحیح مطلب واضح کرنے سے قبل یہ بتانا ضروری ہے کہ اس حدیث کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ منافق اور جھوٹے لوگ کسی بھی دور میں مدینہ منورہ میں اورمسجدنبوی میں داخل نہیں ہو سکتے، بلکہ قرآن و سنت کی متعدد نصوص سے یہ واضح ہوتا ہے کہ مدینہ منورہ میں منافق بھی قیام پذیر تھے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کرنے کے لئے مسجد نبوی میں بھی آیا کرتے تھے اور بعض تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے مسلمانوں کے ساتھ ملکر نماز بھی پڑھا کرتے تھے اور بعض منافق حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سرگوشی اور رازداری کے انداز میں بات بھی کیاکرتے تھے تاکہ صاحب ایمان لوگ ان کو مخلص مؤمن خیال کریں۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

وممن حولکم من الاعراب منافقون ومن اھل المدینۃ مردوا علی النفاق لاتعلمھم نحن نعلمھم سنعذبھم مرتین ثم یردّون الی عذاب عظیم۔

(سورۃ التوبہ آیت:۱۰۱)

ترجمہ: اور بعض لوگ آپ کے آس پاس دیہاتیوں میں سے منافق ہیں اور بعض مدینہ والے بھی منافقت پر اَڑے ہوئے ہیں آپ انہیں نہیں جانتے ہمیں وہ معلوم ہیں۔ ہم ان کو دو مرتبہ عذاب دیں گے، پھر انہیں بڑے عذاب کی طرف لوٹا دیا جائے گا۔

مذکورہ آیت مبارکہ سے یہ واضح ہے کہ بعض منافق مدینہ میں قیام پذیر تھے۔ تفسیر عثمانی میں ہے:

منافق بے فائدہ باتیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کان میںکرتے تھے کہ لوگوں میں اپنی بڑائی جتائیں اور بعض مسلمان غیر مبہم باتوں میں سرگوشی کرتے اتنا وقت لے لیتے تھے کہ دوسروں کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے مستفید ہونے کا موقع نہیں ملتا تھا یا کسی وقت آپ خلوت چاہتے تو اس میں بھی تنگی ہوتی تھی لیکن مروت و اخلاق کے سبب کسی کو منع نہ فرماتے تھے اس وقت یہ حکم ہوا کہ جو مقدرت والا آدمی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سرگوشی کرنا چاہے وہ اس سے پہلے کچھ خیرات کرکے آیا کرے۔ اس میں کئی فائدے ہیں، غریبوں کی خدمت، صدقہ کرنے والے کے نفس کا تزکیہ، مخلص و منافق کی تمیز الخ

(تفسیر عثمانی ص: ۷۰۷: سورۃ المجادلہ آیت: ۱۲)

مذکورہ حوالہ سے یہ بات واضح ہے کہ بعض منافق حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سرگوشی کے انداز میں بات کرتے تھے تاکہ دوسروں کے سامنے اپنی بڑائی ثابت کریں اور مسلمانوں کے دل میں اپنا مقام بنانے کی کوشش کریں۔ منافق لوگ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے ساتھ صف میں کھڑے ہو کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز بھی ادا کیا کرتے تھے جن کی حالت کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے۔

ان المنافقین یخٰدعون اللہ وھو خادعھم واذا قاموا الی الصلوۃ قاموا کسالیٰ یراء ون الناس ولا یذکرون اللہ الا قلیلا۔ (سورۃ النساء آیت :۱۴۲)

ترجمہ: بے شک منافق لوگ اللہ کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ انکو ان کے دھوکہ کا جواب دیتے ہیں اور جب وہ نماز کے لئے کھڑے ہوتے ہیں تو جان چُراتے ہیں اور لوگوں کو دکھلاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کو بہت کم یاد کرتے ہیں۔

اس آیت کریمہ سے یہ واضح ہے کہ منافقین کے نیک اعمال محض ریاء دھوکہ دہی اور دکھلاوے پرمبنی ہوتے ہیں اور ان اعمال کی بناء پر اپنے آپ کو سچا کہنے یا کہلوانے کو بہت پسند کرتے ہیں تاکہ لوگوں کو ان کے دھوکے اور نفاق کا پتہ نہ چلے، بلکہ منافق تو اپنے آپ کو مدینہ منورہ کا اصل وارث سمجھتے تھے اور مسلمانوں کو وہاں سے نکالنے کے منصوبے بناتے تھے، چنانچہ ایک سفر میں دو شخص لڑ پڑے دونوں نے اپنی حمایت کے لئے اپنی جماعت کو پکارا جس پر خاصا ہنگامہ ہو گیا یہ خبر رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی کو پہنچی تو کہنے لگا اگرہم ان مسلمانوں کو اپنے شہر میں جگہ نہ دیتے تو ہم سے مقابلہ کیوں کرتے اور یہ بھی کہا کہ جب ہم اس سفر سے واپس آکر مدینہ میں پہنچیں گے تو ہم معزز اِن ذلیل لوگوں کو یہاں سے نکال دیں گے، جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک اس کی خبر پہنچی تو انکار کرنے لگا کہ میں نے یہ بات کہی ہی نہیں، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں۔

یقولون لئن رجعنا الی المدینۃ لیخرجن الاعز منھا الاذل وللہ العزۃ ولرسولہ وللمؤمنین ولکن المنفقین لا یعلمون۔(سورۃ المنفقون آیت: ۸)

ترجمہ: وہ (منافقین) کہتے ہیں جب ہم مدینہ میں واپس جائیں گے تو وہاں سے معزز لوگ ذلیل لوگوں کو باہر نکال دیں گے۔ اور عزت تو اللہ کے لئے اور اس کے رسول کے لئے اور صاحب ایمان لوگوں کے لئے ہے لیکن منافق نہیں جانتے۔

ناظرین کرام ان حوالوں سے کم از کم اتنا واضح ہو گیا کہ محض مدینہ منورہ میں داخل ہونا یا مسجد نبوی میں پہنچ جانا کسی کافر، منافق اور جھوٹے مدعی نبوت کے پیروکار کو سچا ثابت نہیں کر سکتا ورنہ لازم آئے گا کہ جتنے منافق مدینہ منورہ میں قیام پذیر رہے ہوں وہ سب سچے مان لئے جائیں، حالانکہ یہ باطل ہے لہذا مدینہ منورہ میں داخلہ کو اپنی صداقت کے لئے پیش کرنا مخلصین کا شیوہ نہیں بلکہ مخلصین تو ہمیشہ خوفزدہ رہتے ہیں البتہ اس قسم کی باتیں جھوٹے اور منافق لوگوں کی زبانوں سے ضرور نکلی ہیں مثلاً جھوٹے ابنِ صیاد کی زبان سے اپنی صداقت کوثابت کرنے کے لئے یہی جملہ نکلا جو زید حامد صاحب کے ماننے والے ان کے حق میں بول رہے ہیں۔ تاریخ اسلامی کے مطالعہ سے ہمارے سامنے ایسی ایک بات بھی نہیں آئی کہ کسی سچے شخص نے مدینہ میں داخلہ کو اپنی صداقت کی دلیل قرار دیا ہو، ہاں غلط لوگوں نے اس کو بنیاد بنا کر اپنے مصنوعی سچ کو سہارا دینے کی کوشش ضرور کی ہے جیسا کہ سابقہ حوالوں سے یہ بات بالکل واضح ہے۔

موصوف نے مدینہ منورہ کی فضیلت کے حوالے سے جو حدیث ذکر کی ہے ہم اس کا مطلب عرض کرتے ہیں تاکہ کوئی شخص حدیثِ مذکور کا غلط مطلب بیان کرکے لوگوں کو گمراہ نہ کرسکے۔ چنانچہ روایات کے مجموعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ قیامت سے قبل دجال کے خروج کے زمانہ میں ایک وقت ایسا آنے والا ہے جب مدینہ منورہ کی سرزمین کافر ، منافق اور ناپاک لوگوں سے بالکل صاف کر دی جائے گی اور مدینہ منورہ اپنے اندر سے گند کو ایسے باہر نکال پھینکے گا جیسے لوہے کی بھٹی لوہے کے زنگ کو صاف کر دیتی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:

لاتقوم الساعۃ حتی تنفی المدینۃ شرارھا کما ینفی الکیر خبث الحدید۔

(صحیح مسلم حدیث : ۴۸۷)

ترجمہ: قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ مدینہ اپنے اندر سے شریر لوگوں کو اس طرح نکال دے جس طرح لوہے کی بھٹی لوہے کے زنگ کو ختم کردیتی ہے۔

اس حدیث سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مدینہ کا ہر بُرے آدمی سے پاک ہونا قیامت کے بالکل قریب ہوگا اور دوسری روایات سے واضح ہوتا ہے کہ دجال کے خروج کے زمانہ میں ہوگا۔اور مدینہ منورہ سے کافر و منافق لوگ باہر نکل کر دجال کے لشکر میں شامل تب ہی ہوں گے جب کہ وہ پہلے سے مدینہ منورہ میں موجود ہوں، اگر وہ مدینہ میں رہ ہی نہ سکتے ہوں تو مدینہ منورہ سے نکل کر دجال کے لشکر میں شامل ہونے کا کوئی معنی نہیں رہتا۔

اور بعض روایات کے مطابق مدینہ منورہ کی اس خصوصیت کا تذکرہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک زمانہ میں بھی بعض لوگوں کے حق میں ملتا ہے۔

غرضیکہ یہ عمومی قانون نہیں کہ مدینہ منورہ میں ہر دور میں داخل ہونے والا شخص سچا اور نیک سمجھا جائے ورنہ منافقین کی جماعتوں کو سچا ماننا پڑے گا جن کو قرآن نے بھی جھوٹا کہا ہے۔لیکن بعض زمانوں میں مثلاً خروجِ دجال کے وقت مدینہ منورہ کو غلط لوگوں سے بالکل صاف کر دیا جائے گا جیسا کہ صحیح احادیث سے ثابت ہے نیز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک زمانہ میں بھی بعض گمراہ لوگوں کو مدینہ منورہ سے نکال دیا گیا اس بارے میں حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کی تحریر ملاحظہ فرمائیں:

فدل علی ان المراد بالحدیث تخصیص ناس دون ناس ووقت دون وقت۔ (فتح الباری ۴/۸۸)

ترجمہ: اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ حدیث مذکور ہر شخص کے حق میں نہیں ہے بلکہ اس سے مخصوص لوگ مراد ہیں، نیز یہ ہر زمانہ کے لئے بھی نہیں ہے بلکہ اس سے مخصوص زمانہ مراد ہے۔

حدیث مبارک کا مطلب واضح ہو جانے کے بعد اب کسی شخص کو یہ دعوٰی زیب نہیں دیتا کہ وہ مدینہ منورہ میں داخل ہونے کو اپنی صداقت کی دلیل قرار دے یا اس کے عقیدت مند مدینہ منورہ کے داخلہ کو اس کے لئے معیارِ صداقت سمجھیں۔ زید حامد صاحب کے متبعین کی طرف سے پیش کردہ استدلال انتہائی لغو اور بے ہودہ ہے جس سے بعض کوتاہ فہم لوگوں کو تو وہ اپنا مُرید بنا سکتے ہیں لیکن صاحبِ علم اور باشعور حضرات کو وہ کبھی اپنے دام فریب میں نہیں لا سکتے، کیونکہ سمجھدار لوگ جانتے ہیں کہ صداقت کا معیار ایمان، تقوٰی، توکل، عزم، خُدا کی فرمانبرداری اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و وفاشعاری اور سچوں کا ساتھ دینا ہے، کوئی شخص جھوٹوں کا ساتھ دے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی مخالفت کرے تو وہ کیسے سچابن سکتا ہے؟

موصوف نے زید حامد صاحب کے عشقِ مصطفی کو ثابت کرنے کے لئے دو شخصوں کا تذکرہ کیا ہے (۱)بابا صالح (۲)باقر عمر بلالی۔ ہم اس بات کی بحث میں نہیں پڑتے کہ مذکورہ دونوں شخص قرآنی علوم، احادیث مبارکہ اور سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کیا مقام رکھتے ہیں؟ ہمیں بحث اس بات سے ہے کہ زید حامد صاحب جہاں رہ رہے ہیں وہاں ان کا کیا کردار ہے؟ وہاں کے صاحب علم حضرات ان کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں، اگر مذکورہ بزرگوں کے سامنے یہ بات آجائے کہ زید حامد صاحب پاکستان میں جھوٹے مُدعی نبوت کا حامی ہے تو ان کا رویّہ زید حامد سے کیسا رہے گا؟ جیسا کہ پاکستان کے علم دوست احباب زید حامد کو جھوٹے مدعی نبوت کا مخلص پیرو کار اور اس کے مشن کی تکمیل کا علمبردار سمجھتے ہیں۔

دوسری بات یہ ہے کہ زید حامد صاحب کی طرف سے متعدد علمی شخصیات کی تائید کا تذکرہ مختلف مقامات پر کیا جاتا رہا ہے مثلاً گذشتہ دنوں جامعہ اشرفیہ کے نائب مہتمم حضرت مولانا عبد الرحمن اشرفی صاحب مدظلہ کے بارے میں کہا گیا کہ وہ موصوف کے مقتداء کے حق میں نرم گوشہ رکھتے ہیںاور ان کو غلط نہیں سمجھتے زید حامد صاحب نے بڑی شدومد سے ان کا نام پیش کیا جبکہ حضرت مولانا عبدالرحمن اشرفی صاحب کا تردیدی بیان آپ جامعہ اشرفیہ کی ویب سائٹ پر پڑھ سکتے ہیں، انہوں نے ختم نبوت پر کامل یقین رکھتے ہوئے جھوٹے مُدعی نبوت سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے اسی طرح متعدد بزرگوں کے حوالے دئے گئے مگر ان کی تردید منظر پر آچکنے کے بعد جھوٹے مُدعی نبوت کے پیروکار اپنے غلط خیالات پر بدستور جمے ہوئے ہیں، ایسی صورتحال میں بابا صالح اور باقر عمر بلالی صاحبان کی صورتحال بھی اس منظر نامے کی عکاس ہے، جن کے سامنے حُسنِ عقیدت کا اظہار کرکے موافق رائے لے لی گئی ہو یا ان کے سر غلط بات لگا دی گئی ہو۔

ہم زید حامد اور جھوٹے مدعی نبوت کے پیروکاروں کو ایک اصولی بات کی طرف دعوت دیتے ہیں کہ صدق و کذب کا معیار کسی جگہ میں داخل یا خارج ہونا نہیں اور نہ ہی صدق و کذب کا معیار یہ ہے کہ کسی شخص کو پردہ میںرکھ کر اس کے سامنے محبت و عقیدت کا اظہار کر کے اس کی رائے کو موافق بنا کر اپنی تصدیق کی تشہیر کی جائے بلکہ صدق و کذب کا معیار وہ قرآنی اصول اور احادیث میں بیان کردہ ضابطے ہیں جن پر کسی بھی شخص کو پرکھا جا سکتا ہے ان واضح اصولوں سے انحراف کی بناء پر علماء امت نے یوسف کذاب کی تکفیر کی ہے ۔اب زید حامدصاحب طریقہ کار کو تھوڑا سا بدل کر کذاب ملعون کے مشن کو جاری رکھے ہوئے ہیں تو ہم ان کو کس طرح سچا سمجھ سکتے ہیں۔اگر زید حامد صاحب اپنے آپ کو سچا ثابت کرنا چاہتے ہیں تو اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ وہ سچے لوگوں کے ساتھ تعلق جوڑیں اور جھوٹے لوگوں کے جھوٹ پر لعنت بھیجیں اور ان سے اپنی برأت کو ظاہر کریں جو زید حامد صاحب کی طرف سے ابھی تک پیش نہیں کی گئی اور اگر کی بھی گئی ہے تو انتہائی مبہم پیچیدہ اور غلط انداز میں جس نے ان کے کردار کو مزید مشکوک بنا دیا ہے۔