+(00) 123-345-11

میرے دو بچے ضائع ہوئے ہیں ۔ بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ تمہارے ضائع ہونے والے بچے تمہیں جنت میں لے جائیں گے۔ کیا یہ درست ہے؟

دنیا میں جس مسلمان کو تکلیف پہنچے اور وہ اس پر صبر کرے تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کو اس کا اجر ضرور عطا فرمائیں گے جس عورت کا حمل (ناتمام بچہ) ضائع ہو جائے اس کے ثواب کے متعلق حدیث میں آپ ا کا ارشاد گرامی منقول ہے۔

عن معاذ رضی اللّٰہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ما من مسلمین یتوفیٰ لھما ثلاثۃ من الولد الا ادخلھما اللہ الجنۃ بفضل رحمتہ ایاھما فقالوا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و اثنان فقالا او اثنان قالو او واحد قال او واحد ثم قال والذی نفسی بیدہ ان السقط لیجر امہ بسررہ الی الجنۃاذا احتسبتہ … رواہ احمد والطبرانی فی الکبیر ۔ (مجمع الزوائد: ۳/۹)

ترجمہ: حضرت معاذرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جن دو مسلمانوں کے تین بچے وفات پا جائیں تو اللہ ان کے والدین پر فضل و رحم فرماتے ہوئے انہیں جنت میں داخل فرما دیتے ہیں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم عرض کرنے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر دو بچے وفات پا جائیں تو ان کے والدین کا بھی یہی حکم ہے آپ ا نے فرمایا دو وفات پانے والے بچوں کے والدین کا بھی یہی حکم ہے۔ صحابہ کرامؓ عرض کرنے لگے اگر کسی کا ایک بچہ وفات پا جائے تو اسکے والدین کا بھی یہی حکم ہے؟ آپ ا نے فرمایا کہ اگرکسی کا ایک بچہ وفات پاجائے تو اس کے والدین کا بھی یہی حکم ہے پھر آپ ا نے ارشاد فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے بے شک ناتمام بچہ اپنی ناف کے ساتھ اپنی والدہ کو کھینچ کر جنت میں لے جائے گا بشرطیکہ وہ اس مصیبت پر ثواب کی نیت سے صبر کرے۔

مندرجہ بالاحدیث سے واضح ہے کہ جو حمل ولادت سے قبل ضائع ہو جائے وہ قیامت کے روز خدا کے ہاں اپنی والدہ کیلئے شفاعت کرے گا اور انہیں کھینچ کر جنت کی طرف لے جائے گا حدیث مذکور میں والدہ کیلئے بشارت کا ذکرہے مگر اللہ کی رحمت سے امید ہے کہ والد کو بھی اس کی شفاعت میں سے کچھ نہ کچھ حصہ ضرور ملے گاکیونکہ حمل کے ضائع ہونے سے اگرچہ والدہ زیادہ تکلیف اٹھاتی ہے تاہم والد بھی مغموم ہوتا ہے لہٰذا دونوں کیلئے شفاعت کی امید ہے بشرطیکہ وہ اس مصیبت کے ثواب کوضائع کرنے والا عمل اختیار نہ کریں۔