+(00) 123-345-11

جن چیزوں سے نماز فاسد ہو جاتی ہے حدیث میں اُن کا یوں ذکر کیا گیا ہے کہ اگر کوئی کتا، گدھا یا عورت نمازی کے سامنے سے گزر جائے تو نماز فاسد ہو جاتی ہے، سوال یہ ہے کہ کیا عورت کی حیثیت گدھے یا کتے کے برابر ہے؟ کہ جیسے کتے اور گدھے کے نمازی کے آگے سے گزرنے کے سبب نماز ٹوٹ جاتی ہے اسی طرح عورت کے گزرنے سے بھی نماز ٹوٹ جائے گی؟ اگر ایسا نہیں تو اس حدیث کا کیا مطلب ہے؟

اسلام میں عورت کو بڑا مقام دیا گیا ہے، عورت کہیں ایک معزز بیٹی ہے تو دوسرے اعتبار سے قابل تکریم بہن ہے، پھر اس کی ایک حیثیت رفیقۂ حیات کی ہے جس کے حقوق کی ادائیگی اُس کے شریک ِزندگی پر لازم ہے پھر وہ انتہائی معزز اور محترم ماں ہے جس کا درجہ خدمت کے اعتبار سے باپ سے تین گنا زیادہ رکھا گیا ہے۔ اسلام نے نیک عورت کو دنیا کی بہترین جنت او رمحبوب ترین چیز قرار دیا ہے اور عورتوں کو کم تر، ذلیل اور بے عزت قرار دینے کے زمانۂ جاہلیت کے تمام تصورات کو مٹایا ہے اور اسے ایک معزز محترم، قابل تکریم معاشرے کا بہترین فرد قرار دیا ہے اگر وہ نیکی، صلاح اور تقویٰ کے ساتھ متصف ہو۔

اسلام میں عورت کو ہرگز کتے کے برابر نہیں قرار دیا گیا او رنہ ایسا کہنا ممکن ہے کیونکہ کتا ایک جانور ہے اور عورت انسان ہے، انسان تمام مخلوقات سے افضل ہے بشرطیکہ وہ فضیلت والے کام کرے اور با اخلاق و باکردار ہو۔

سوال میں جس حدیث کا حوالہ دیا گیا ہے اور جس کو پیش کر کے عورت اور کتے کی مساوات کا دعویٰ کیا گیا ہے تو حقیقت میں سائل نے اس کے معنی کو سمجھا ہی نہیں جس کی بنا پر اسے اشکال پیش آیا ہے، چنانچہ حدیث کا مفہوم عرض کرنے سے قبل کچھ باتیں عرض کی جاتی ہیں جن سے اس کا معنی واضح ہو جائے گا اور سائل کا اشتباہ ختم ہو جائے گا۔

جس مذہب کے پیرو کار رب کو مانتے ہیں تو وہ اپنے رب کے ساتھ راز و نیاز اور عبادت گذاری کے مختلف طریقے رکھتے ہیں، اسلام بھی ایک دین بلکہ جامع، کامل اور محفوظ دین ہے جس میں رب کی عبادت کرنے کے طریقوں میں ایک طریقہ نماز ادا کرنے کا ہے، نماز ادا کرنے والے کو خدا کے ساتھ راز و نیاز اور مناجات کرنے والا قرار دیا گیا ہے، جب کوئی دل سے نیت باندھ کو رب کے حضور نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو اس کی تمام تر توجہ اللہ کی طرف ہونی چاہیے، اس کی زبان سے نکلا ہوا مناجات کا ایک ایک لفظ دل کی توجہ اور سودائے قلب سے نکلا ہو، اور اس کے پیش نظر صرف اپنے رب کا دیہان ہو اور باقی دنیا سے وہ بالکل یکسو اور بے نیاز ہو کر اپنے رب کی عبادت میں مشغول ہو تو اس کی یہ عبادت مقبول ترین عبادت بن جائے گی جو اس بندے کے رتبہ کو بڑھا کر خدا کا مقرب او ربرگزیدہ بندہ بنا دے گی۔ نبی اکرم ا نے اپنی تعلیمات کے ذریعے ایسی ہدایات دی ہیں جن کی روشنی میں عبادت کے دوران بندے کے رب کے ساتھ تعلق میں خشوع اور خضوع موجود رہتا ہے اور ان پر عمل نہ کرنے کے نتیجے میں خشوع اور خضوع فوت ہو جاتا ہے اور نماز کے ارکان کی ادائیگی بے روح رہ جاتی ہے، عبادت میں وزن نہیں رہتا اور اجر و ثواب کا درجہ حاصل نہیں ہوتا، انہی ہدایات میں سے ایک ہدایت یہ ہے کہ نماز پڑھنے والے کے آگے سے نہ گزرا جائے کیونکہ اس سے اس کی توجہ بٹتی ہے اور اس کا خشوع زائل ہو جاتا ہے، نیز ارشاد فرمایا کہ نماز پڑھنے والے کو چاہیے کہ اپنے سامنے سُترہ نصب کر لے اس کے آگے سے گزرنے سے اس کی نماز میں کوئی فرق نہیں آئے گا یعنی توجہ مرکوز رہے گی اور بٹے گی نہیں لیکن اگر (توجہ مرکوز کرنے کے لیے) سُترہ نہ گاڑا تو گدھا، سیاہ کتا اور عورت وغیرہ اس کے آگے سے گزر کر اس کی توجہ کو تقسیم کر سکتے ہیں۔ اس حدیث کا یہ مطلب نہیں کہ ان کے آگے سے گزر جانے سے نماز ہی ٹوٹ جائے گی بلکہ مطلب یہ ہے کہ نماز کا خشوع ختم ہو سکتا ہے، جس کی وجہ سے عبادت کی ادائیگی بے روح ہو جائے گی اور یہ بات ظاہر ہے کہ عورت کے ساتھ میل جول، اس کی کشش اور اس کی جانب دل کی توجہ بندے کو رب سے بے توجہ کر دیتی ہے، خاص طور پر نماز جیسی حالت میں عورت کو مرد کے سامنے سے نہیں گزرنا چاہیے کہ اس سے اس کی توجہ بٹ جائے گی لیکن اگر ایسی صورت ہو جس میں توجہ بٹنے کا کوئی اندیشہ نہ ہو تو عورت کے سامنے موجود رہنے سے بھی نماز میں کوئی خلل نہیں آتا جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی اکرم ا (رات کو حجرہ میں) نماز ادا فرمایا کرتے تھے اور میں آپ ا کے سامنے قبلہ کی جانب لیٹی ہوتی تھی اور جب آپ ا سجدہ فرمانا چاہتے تو میری ٹانگ پر ہاتھ لگاتے تو میں انہیں اپنی جانب سمیٹ لیتی اور آپ ا سجدہ فرما لیتے۔

(ابودائود ، حدیث: ۷۱۲)

مذکورہ تفصیل سے یہ واضح ہے کہ عورت کو نمازی کے آگے سے گزرنے سے جو روکا جا رہا ہے اس کی یہ وجہ نہیں معاذ اللہ کہ وہ کتے یا گدھے جیسی ہے بلکہ وجہ یہ ہے کہ مناجات میں مشغول نمازی کے آگے سے گزرنے سے اس کا خشوع و خضوع ختم ہو سکتا ہے اس لیے عورت کو مرد کی نماز کا خشوع ختم کرنے کا سبب نہیں بننا چاہیے اور مرد کو بھی محتاط رہنے کی تلقین کی گئی۔

اور کتے خاص طور پر سیاہ کتے کو حدیث میں شیطان قرار دیا گیا ہے سیاہ کتا خرابی ٔ مزاج اور بائولا پن کے قریب ہوتا ہے اس کے نمازی کے آگے سے گزرنے سے بھی اس کی توجہ قائم نہیں رہے گی، اسی طرح گدھا بھی اکثر انتشار کی کیفیت میں رہتا ہے جس کی طرف نگاہ جانے سے یکسوئی میں خلل آئے گا بعض روایات میں ان تین کے علاوہ بھی متعدد چیزوں کا ذکر ہے جن کا حاصل یہ ہے کہ ہر ایسی چیز جس کے قرب سے ذہن تشویش میں مبتلا ہو اور نمازی کی توجہ بٹے تو اس سے نمازی آدمی کو محتاط رہنا چاہیے۔