+(00) 123-345-11

کیا یہ درست ہے کہ دوزخ زیادہ سے زیادہ دوزخی مانگے گی اور اللہ تعالیٰ پھر اپنی بائیں ٹانگ اس میں ڈال دینگے؟

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

یوم نقول لجھنم ھل امتلأت وتقول ھل من مزید (ق: ۳۵)

’’جس روز ہم دوزخ سے کہیں گے، کیا تو بھر گئی ہے؟ اور وہ کہے گی کیا کچھ اور بھی ہے‘‘

اس کی تشریح میں علامہ قرطبیؒ بحوالہ مسلم مندرجہ ذیل حدیث نقل فرماتے ہیں:

عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال: لا تزال جھنم یلقی فیھا وتقول ھل من مزید حتی یضع رب العزۃ فیھا قدمہ فینزوی بعضھا الی بعض وتقول قط قط بعزتک وکرمک ولا یزال فی الجنۃ فضل حتی ینشیٔ اللہ لھا خلقا فیسکنھم فضل الجنۃ (الجامع لاحکام القرآن ۱۷:۲۰)

جہنم میں مسلسل (جہنمیوں کو ) ڈالا جائے گا، اور جہنم کہتی رہے گی:کیا کچھ اور بھی ہے؟ یہاں تک رب العزۃاس میں اپنا قدم رکھیں گے تو جہنم آپس میں سُکڑ جائے گی اور کہے گی، بس بس تیری عزت اور کرم کی قسم، اور جنت میں بھی خالی جگہ رہ جائے گی۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کے لئے ایک مخلوق پیدا فرما کر جنت کے خالی حصہ میں انہیں ٹھہرائے گا۔

مذکورہ بالا حدیث میں ذکر کردہ قدم سے کیا مراد ہے؟ اس کے بارے میں دو اقوال ہیں۔

۱۔ پہلا قول یہ ہے کہ اس سے مراد اللہ رب العزت کا قدم ہے جس کے رکھنے سے جہنم سکڑ کر سمٹ جائے گی اور اس کا خلا پُر ہو جائے گا۔ باقی قدم اور اس کے رکھنے کی کیفیت کیا ہوگی یہ اللہ ہی کو معلوم ہے۔ہم دنیامیںرہتے ہوئے اپنے محدود علم سے اس کی مکمل کیفیت کا نہ ادراک کر سکتے ہیں اور نہ سمجھ سکتے ہیں ہاں اس پرایمان رکھتے ہیں کہ جیسے بھی اللہ نے فرمادیا وہ حق اور سچ ہے۔

۲۔ بعض علماء کی رائے کے مطابق قدم ایک مخلوق کا نام ہے جن کا دوزخی ہونا رب کے ہاں طے ہے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کی ایک روایت سے بھی اس کی وضاحت ہوتی ہے، اور اس معنیٰ کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ سطور بالا میں ذکر کردہ حدیث میں جہنم کے مقابلہ میں جنت کے خلاء کو ایک مخلوق سے پُر کرنے کا ذکر ہے جس کی باقاعدہ پیدائش ہوگی تو اسی طرح جہنم کا خلابھی ایک مخلوق سے پُر ہوگا جس کا نام قدم ہے۔ تفصیل کے لئے دیکھئے (الجامع لاحکام القرآن ۱۷ :۲۰)