+(00) 123-345-11

جناب حازم جلال مصری نے وزیر اعظم پاکستان کے نام اپنے مراسلہ کے تحت پاکستان میں شائع ہونے والے قرآنی نسخوں کی طرف توجہ مبذول کرائی ہے کہ تقریباً تمام نسخوں میں قرآن حکیم کی آیت ولاصلبنکم کو دو طرح پر لکھا گیا ہے سورۃ الاعراف کی آیت ۱۲۴ میں ولا صلبنکم بغیر ’’و‘‘ کے ہے جبکہ سورۃ طہ کی آیت ۷۱ اور سورۃ الشعراء کی آیت ۴۹ ولا وصلبنکم میں ’’و‘‘ زائد کے ساتھ لکھا ہوا ہے۔

مراسلہ نگار کی رائے ہے کہ جہاں یہ لفظ واؤ کے ساتھ آیا ہے وہ غلط ہے کیونکہ پاکستان کے علاوہ سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک میں شائع ہونے والے کسی قرآنی نسخے میں یہ لفظ واو کے ساتھ نہیں لکھا گیا لہٰذا پاکستان میں شائع ہونے والے تمام نسخوں میں اس لفظ کی اصلاح کی جائے۔

چونکہ یہ نہایت دقیق، حساس اور علمی نوعیت کا معاملہ ہے اس لیے وزارت کی رائے ہے کہ اس مسئلہ پر جید علمائے کرام ماہرین علوم قرآنی، تجوید اور ’’راسخون فی العلم‘‘ کی رائے سے استفادہ کیا جائے کہ اس لفظ کی کتابت کس نہج پر قرآنی نسخوں میں ہو اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی وضاحت ہو کہ مذکورہ لفظ کے ساتھ ’’واو‘‘ کا استعمال برمحل ہے یا نہیں اگر برمحل ہے تو کن وجوہات کی بناء پر اور اگر نہیں تو اس کی کیا وجہ ہے؟

وزارت اس قرآنی اور علمی نوعیت کے حامل مسئلہ پر آپ سے ملتمس ہے کہ ازراہ کرم اپنی اولین فرصت میں اس بارے میں اپنی قیمتی رائے سے وزارت کو مطلع فرمائیں تاکہ اس اشکال کی صحیح صورت حال کا تعین ہو سکے۔

سورۃ الاعراف(آیت:۱۲۴) میں ’’لا صلبنکم‘‘ کے بارے میں تمام حضرات کااتفاق ہے کہ اس میں ہمزہ اور صاد کے درمیان واؤ کا اضافہ نہیں اور تمام مصاحف عثمانیہ میں اس کو واؤ کے بغیر لکھا گیا ہے لیکن سورۃ طہ (آیت :۷۱) اور سورۃ الشعراء (آیتہ:۴۹) میں ’’لاصلبنکم‘‘ کو واؤ کے اضافے کے ساتھ لکھنے کے بارے میں مصاحف عثمانیہ مختلف ہیں بعض مصاحف میں اس کو واؤ کے اضافے کے ساتھ لکھا گیا ہے اور بعض میں واؤ کے بغیر لکھا گیا ہے اور دونوں قسم کے مصاحف درست ہیں کسی میں کتابت کی غلطی نہیں۔

چنانچہ امام ابو عمرو دانی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی ۴۴۴ھ) تحریر فرماتے ہیں۔

اخلتف فی قولہ ’’ولأ صلبنکم‘‘ فی طہ والشعراء ففی بعضھا باثبات واو بعد الھمزۃ وفی بعضھا بغیر واو، واجتمعت علی حذف الواؤ فی الحرف الذی فی الأعراف (المقنع/ ص:۵۹)

اور امام ابو داود سلیمان بن نجاح رحمہ اللہ (المتوفی ۴۹۶ھ)تحریر فرماتے ہیں:

(ثم لأصلبنکم اجمعین) ووقع فی طہ (ولا صلبنکم فی جذوع النخل)وفی الشعراء (ولأصلبنکم أجمعین) بالواو موضع ثم ھنا الا ان المصاحف اختلفت فی ھذین الموضعین أعنی (لا صلبنکم)فی طہ و الشعراء فکتبوا فی بعضھا بلام الف لا غیر کما رسمنا مثل الاول المذکورھنا المتفق علیہ وفی بعضھا بواو بعد اللام الف لیدلوا علی ضمۃ الھمزۃ۔

(مختصر التبیین لہجاء التنزیل/ ص: ۵۶۴)

امام شاطبی رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں: ۔

والخلف فی سأریکم قل وھو لدی اصلبنکم طہ مع الشعراء (عقلیۃ اتراب القصائد / ص:۴۷)

اس کی شرح میں شیخ موسیٰ بن جار اللہ لکھتے ہیں: ۔

زادت اکثر المصاحف واوأً بعد الھمزۃ فی سأریکم ولأ صلبنکم وعدم الزیادۃ قلیل اما حرف الاعراف ثم لأصلبنکم اجمعین فبلا واو بالاجماع (شرھ عقلیۃ اتراب القصائد/ ص:۴۷)

علامہ خراز رحمہ اللہ فرماتے ہیں:۔

وعن خلاف ساریکم دون مین : ولاصلبنکم فی الاٰخرین (مورد الظمان / ص:۲۶۲)

اس کی شرح میں شیخ ابراہیم بن احمد المارغنی التونسی لکھتے ہیں : ۔

و اما الکلمتان المختلف فیھما فھما سأریکم ولأصلبنکم، اما سأریکم ففی الاعراف (سأوریکم دار الفاسقین) وفی الانبیاء (ساوریکم آیتی فلا تستعجلون) واما لاصلبنکم ففی طہ (ولأ صلبنکم فی جذوع النخل) وفی الشعراء (لأصلبنکم اجمعین) وھذان ھما المرادان بقولہ فی الاخرین واحترز بہ عن لأصلبنکم الاول وھو فی الاعراف فان ابا عمر و حکی اتفاق المصاحف علی عدم زیادۃ الواو فیہ۔

(دلیل الحیران شرح مورد الظمأن فی رسم وضبط القرآن / ص:۲۶۳)

ابن وثیق اندلسی رحمہ اللہ (المتوفی ۶۵۴ ھ) تحریر فرماتے ہیں : ۔

(ولا وصلبنکم) فی طہ والشعراء والاشھر زیادتھا واما (ثم لأصلبنکم فلم تجیء فیہ زیادۃ (الجامع لما یحتاج الیہ من رسم المصحف / ص :۵۴)

ابن الجزری ؒ تحریر فرماتے ہیں: ۔

وھذا مما نبہ علیہ الاستاذ ابو شامۃ ؒ ورسم (لأصلبنکم) فی طہ والشعراء فی بعض المصاحف بالواؤ بعد الالف وکذالک (ساوریکم) فقطع الدانی ومن تبعہ بزیادۃ الواو فی ذلک وان صورۃ الھمزۃ ھو الواو کتبت علی مراد الوصل تنبیھاً علی التخفیف (النشر فی القراء ات العشر ص: ۴۵۶ ج:۱)

شیخ احمد بن عبدالغنی الدمیاطی (المتوفی ۱۱۱۷ ھ) لکھتے ہیں:

وفی بعض المصاحف ولأوصلبنکم بواو بین الالف والصاد وکذا فی الشعراء (اتحاف فضلاء البشر / ص:۳۰۹)

علامہ محمد غوث بن ناصر الدین النائطی الارکانی تحریر فرماتے ہیں:

ولاصلبنکم بوصل لام الابتداء مفتوحۃ وضم الھمزۃ و بزیادۃ واو بین الالف والصاد المھملۃ المفتوحۃ علی خلاف۔ (نثر المرجان فی رسم نظم القرآن ج ۔۳، ص:۳۰۹)

شیخ علی محمد الضباع تحریر فرماتے ہیں:

وذکرا (ای الشیخان، ابو عمر والدانی وابوداؤد سلیمان بن نجاح۔ ناقل) ان المصاحف اختلفت فی سأوریکم ولاصلبنکم بطہ والشعراء وخص الدانی زیادتھا فی سأوریکم بالمدنیۃ واکثر العراقیہ واختار ابو داؤد ترکھا فی لأصلبنکم (سمیر الطالبین فی رسم وضبط الکتاب المبین / ص:۷۶)

برصغیر میں فن قرأت کے مشہور امام حضرت مولانا قاری فتح محمد صاحب پانی پتیؒ تحریر فرماتے ہیں:

اور یہی خلاف طہ اور شعراء کے ’’لا صلبنکم‘‘ میں بھی ہے (یعنی بعض میں لام کے بعد الف اور واو ٔ ہے اور بعض میں صرف الف ہے)۔ (اسہل الموارد/ص: ۱۱۷)

اور حضرت مولانا قاری رحیم بخش صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

ولا صلبنکم (طہ و شعراء رکوع ۳ ) میں اختلاف ہے کہ بعض میں ہمزہ کے بعدواؤ ہے او ر بعض میں نہیں ہے، البتہ اعراف رکوع ۴ والے ’’ثم لأ صلبنکم‘‘ میں باتفاق واؤ نہیں ہے۔ (الخط العثمانی فی الرسم القرآنی/ ص:۹۲)

مندرجہ بالا عبارات سے یہ بات واضح طور پر معلوم ہو گئی کہ سورۃ طہ اور سورۃ الشعراء میں ’’لا صلبنکم‘‘ کو واؤ کے بغیر اور واؤ کے اضافے کے ساتھ دونوں طرح لکھا گیا ہے اور واؤ کا اضافہ رسم الخط عثمانی کے خلاف نہیں بلکہ دونوں طریقہ سے لکھنا رسم الخط عثمانی کے موافق اور درست ہے اس کو غلط کہنا درست نہیں۔

رہی یہ بات کہ راجح کونسا قول ہے؟ آیا ’’لا صلبنکم‘‘ کو واو کے اضافہ کے ساتھ لکھنا راجح ہے یا اضافہ کے بغیر لکھنا راجح ہے؟ تو اس بارے میں دونوں قسم کی رائے ملتی ہیں اہل مصر اور اہل مدینہ کے ہاں ’’لأ صلبنکم‘‘ کو واو کے بغیر لکھنا راجح ہے۔

چنانچہ امام ابو داود سلیمان بن نجاح سورۃ الاعراف کی آیت ’’لأصلبنکم‘‘ کے تحت تحریر فرماتے ہیں:

وانا استحب رسم الموضعین المذکورین بلام الف لاغیر مثل الاول الواقع ھنا لأربعۃ معان ۔ احدھا موافقۃ للمصاحف المرسوم فیھا ذلک کذلک والثانی مطابقۃ لہذا الاول ، والثالث علی اللفظ والرابع لانھا لم تزد فی شیء من مصاحف اھل المدینۃ التی بنینا کتابنا علیھا فی الخط والعدد والخمس والعشر (مختصر التبیین / ص: ۶۵۵)

اور شیخ علی محمد الضباع المصری فرماتے ہیں:

واختار ابو داود ترکھا فی ’’لأ صلبنکم‘‘ موافقۃ للفظ ولحرف الاعراف وللمدنیۃ وللاختصار وعلیہ العمل(سمیر الطالبین / ص:۷۶)

شیخ ابراہیم ابن احمد المارغنی التونسی ؒ لکھتے ہیں:

والعمل عندنا علی زیادۃ الواو فی ’’سأریکم‘‘ فی الصورتین وعلی عدم زیادتھا فی موضعی ’’لاصلبنکم‘‘ الاخیرین کالاول (دلیل الحیران / ص:۲۶۳)

اہل مدینہ کے مصاحف کا رسم الخط امام ابو عبداللہ بن عبدالجلیل التنسی رحمہ اللہ (المتوفی ۸۹۹ھ) کی کتاب الطراز علی ضبط الخراز میں بیان کردہ ضبط کے مطابق ہے۔ چنانچہ ’’مجمع الملک الفھد‘‘ کے مطبوعہ قرآن پاک کے آخر میں ہے۔

واخذت طریقۃ ضبطہ مما قررہ علماء الضبط علی حسب ماورد فی کتاب الطراز علی ضبط الخراز للامام التنسی (ص: ’’ أ ‘‘)

امام تنسیؒ اور امام ابو داؤد ؒ او ر شیخ علی محمد الضباع و غیرھم نے واو کے ترک کو ترجیح دی ہے اسی لیے اہل مدینہ کے مصاحف میں واو کا اضافہ نہیں ہے لیکن بہت سے دوسرے علماء نے ’’لا ٔصلبنکم‘‘ کے رسم الخط میں واو کے اضافے کو راجح قرار دیا ہے۔

چنانچہ امام ابو عمر والدانی ؒ تحریر فرماتے ہیں:

اخبرنی الخاقانی عن محمد بن عبداللہ الاصبھانی باسنادہ عن محمد بن عیسی قال: الذی فی طہ والشعراء بالواو ومنھم من یکتبھا بغیر واو (المقنع/ ص : ۶۰)

ابن وثیق اندلسیؒ لکھتے ہیں :

’’ولأ وصلبنکم‘‘ فی طہ والشعراء والاشھرزیادتھا، واما (ثم لاصلبنکم) فلم تجیء فیہ زیادۃ (الجامع / ص: ۵۴)

صاحب خلاصہ امام سخاوی ؒ سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:۔

انہ قال ما رأیت عدم زیادۃ الواو فی لاوصلبنکم فی مصحف ما الا فی المصحف الشامی فانہ فیہ بغیر الواؤ اقول ولا یبعد ان یکون الواو صورۃ ضمۃ الھمزۃ کتبوا بھا لقرب عھدھم بالخطوط السابقۃ کما قال الکرمانی فی العجائب وکتبہ الجزری فی مصحفہ بغیر الواو ولعلہ تبع للمصحف الشامی او سھی فانہ کتب الواو صفراء فی سورۃ الشعراء (نثر المرجان ج:۴ ۔ ص:۳۰۹)

شیخ موسیٰ بن جار اللہ تحریر فرماتے ہیں:

زادت اکثر المصاحف واو بعد الھمزۃ فی ساریکم ولاصلبنکم وعدم الزیادۃ قلیل اما حرف الاعراف (ثم لاصلبنکم اجمعین) فبلاواو بالاجماع (شرح العقلیۃ / ص: ۴۷)

حضرت مولانا قاری رحیم بخش صاحب ؒ تحریر فرماتے ہیں:

محمد بن عیسیٰ فرماتے ہیں کہ طہ اور شعراء والے واو سے ہیں اور صاحب نشر کے یہاں مختار یہ ہے کہ ان دونوں کلموں میں چاروں جگہ الف زائد اور ہمزہ بصورت واؤ ہے۔

(الخط العثمانی / ص:۹۲)

امام محمد بن عیسیؒ (المتوفی ۲۵۳ھ) ابن وثیق اندلسیؒ (المتوفی ۶۵۴ھ) امام سخاویؒ ، شیخ موسیٰ بن جار اللہ ؒ وغیرہم کے نزدیک راجح یہی ہے کہ سورۃ طہ اور سورۃ الشعراء میں ’’لاصلبنکم‘‘ واو کے اضافے کے ساتھ لکھا جائے جیسا کہ مندرجہ بالا عبارات سے واضح ہے۔

اور ہندوستا ن کے عادل بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر رحمۃ اللہ علیہ کے قلم سے لکھے ہوئے قرآن پاک کے نسخہ میں بھی سورۃ الشعراء میں ’’لاصلبنکم‘‘ کو واو کے اضافے کے ساتھ لکھا ہے۔

خلاصہ یہ کہ سورۃ طہ اور سورۃ الشعراء میں ’’لا صلبنکم‘‘ کو واو کے اضافے کے ساتھ اور بغیر اضافے کے لکھنے کے بارے میں دونوں قسم کے قول ملتے ہیں بعض حضرات نے واؤ کے اضافے کو ترجیح دی ہے اور بعض نے ترک کو ترجیح دی ہے اور واو کے اضافے کے ساتھ لکھنے والوں کا عمل محض غلط اور خطا نہیں بلکہ معتبر علماء ثقات کی ترجیح پر مبنی ہے چنانچہ مذکورہ بالا علماء کے علاوہ برصغیر (پاک وہند) کے ممتاز قرأ میں سے حضرت مولانا قاری رحیم بخش صاحب پانی پتی ؒ مولانا قاری طاہر رحیمی صاحب قاری محمد اسحاق صاحب، قاری سید معین الدین صاحب، قاری امین اشرف صاحب، قاری عبدالرؤف صاحب، قاری محمد یعقوب صاحب نے ’’لا صلبنکم‘‘ (سورۃ طہ و شعراء میں ) واو کے اضافے کو ترجیح دے کر قرآن پاک (مطبوعہ ادارۃ القرآن۔ کراچی) کے رسم الخط کی تصحیح کرتے ہوئے آخر میں مہر تصدیق ثبت فرمائی ہے۔

ادارۃ القرآن کے مطبوعہ قرآن پاک کے آخر میں ہے۔

وحیث وقع الاختلاف فی بعض نصوصھم رجحنا قول صاحب نثر المرجان وجعلنا فیصلا بحسب ارشاد استاذ الاساتذہ المقری الشیخ فتح محمد الفانی فتی ثم المھاجر المدنی ا ھ

اہل مدینہ نے جیسے قرآن پاک کے رسم الخط کی بنیاد امام تنسیؒ کی کتاب’’ الطراز علی ضبط الخزاز ‘‘پر رکھی ہے اسی طرح ہندو پاک کے قراء کے ہاں اختلاف کے وقت علامہ محمد غوث ؒ صاحب نثر المرجان کی ترجیح کو فوقیت ہے اور علامہ محمد غوث ؒ نے واو کے اضافے کو ترجیح دی ہے (دیکھئے نثر المرجان / ۴:۳۰۹) لہذا اصولاً جب یہ رسم الخط مسلم ہے اور علماء ثقات کی ترجیحات سے موید ہے تو مراسلہ نگار کا اسے خطا کہنا اور قرآن پاک میں زیادتی قرار دے کر حرام کہنا درست نہیں اور یہ کہنا کہ سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک کے مطبوعہ قرآن پاک کے نسخوں میں یہ لفظ کہیں بھی واؤکے اضافے کے ساتھ نہیں آیا تو صرف اس وجہ سے رسم الخط عثمانی کے دوسرے انداز تحریر کو غلط نہیں کہا جا سکتا کیونکہ جس طرح مصاحف عثمانیہ میں ’’لاصلبنکم‘‘ کو واؤ کے اضافے کے بغیر ضبط کیا گیا ہے اور اسی طرح بعض مصاحف عثمانیہ کے رسم الخط میں واؤ کا اضافہ بھی موجود ہے۔ اور ’’لا صلبنکم‘‘ کی واضح مثال ’’ساوریکم‘‘ ہے، چنانچہ مصاحف اہل مدینہ وغیرہ میں بھی مذکورہ لفظ واو کے اضافے کے ساتھ لکھا گیا ہے (ملاحظہ ہو سورۃ الاعراف/ آیت :۱۴۵، سورۃ الانبیائ/ آیت :۳۷) تو جب ’’ساوریکم‘‘ کے رسم الخط میں واوکا اضافہ خطا نہیں بلکہ اصول و ضابطہ پر مبنی ہے (جیسا کہ عنقریب معلوم ہو گا) تو ’’لاو صلبنکم‘‘ میں واو کا اضافہ خطا کیسے ہو سکتا ہے جبکہ مصاحفِ عثمانیہ میں یہ بھی واو کے اضافے کے ساتھ مرسوم ہے۔

مذکورہ بالا تفصیل سے معلوم ہوا کہ (سورۃ طہ و شعراء میں ) ’’لا و صلبنکم‘‘ کی کتابت واو کے اضافے کے ساتھ برمحل ہے اور رسم الخط عثمانی کے موافق ہے۔

پھر بعض حضرات نے یہاں الف کو صورۃ ہمزہ اور واو کو زائد قرار دیاہے اور بعض حضرات نے اس کے برعکس واو کو صورۃ ہمزہ اور الف کو زائد قرار دیا ہے اور بعض کے ہاں اس مقام پر الف اور واو دونوں صورت ہمزہ ہیں ان میں سے کوئی بھی زائد نہیں۔

رہی یہ بات کہ ’’لاوصلبنکم‘‘ میں واؤ کا اضافہ کس اصول پر مبنی ہے؟ تو اس بار ے میں مندرجہ ذیل امور بیان کیے گئے ہیں۔

(۱) ہمزہ کے ضمہ کو بتانے کے لیے واو کا اضافہ کیا گیا۔ (مختصر التبیین/ ص: ۵۶۴)

(۲) (ضابطہ) اگر ہمزہ کلمہ کے شروع میں آئے تو اسے ہر جگہ الف کی صورت میں لکھا جاتا ہے (جیسے أمر۔ أبی۔ إسحاق ۔ إسمعیل ، أُنزل ، أُملی) لیکن ہمزہ متوسطہ مفتوحہ یا مضمومہ جس سے پہلے زبر ہو یا ہمزہ متوسطہ مکسورہ جس سے پہلے زبر یا پیش ہو اپنی حرکت کے موافق مرسوم ہوتا ہے چنانچہ ہمزہ مفتوحہ الف کی صورت میں لکھا جاتا ہے (جیسے سأل ) اور ہمزہ مکسورہ یا کی صورت میں لکھا جاتا ہے (جیسے: یئس سئلو) اور ہمزہ مضمومہ واؤ کی صورت میں لکھا جاتا ہے (جیسے تؤزّھم )(دیکھئے :الخط العثمانی فی الرسم القرآنی / ص:۲۲ ، ۱ سہل الموارد / ص: ۱۲۱) اس ضابطہ کی رو سے لام داخل ہونے سے قبل ہمزہ کو بصورت الف لکھا گیا کیونکہ ہمزہ ابتداء میں واقع ہے لیکن جب اس پر لام داخل ہو ا تو ہمزہ وسط کے حکم میں ہو گیا اس اعتبار سے ہمزہ اپنی حرکت کے موافق مرسوم ہونا چاہیے۔

الحاصل لام تاکید کو اگر کلمہ کا جزو مانا جائے تو یہ ہمزہ متوسطہ ہے لہذا اسے بصورت واؤ لکھا جانا چاہیے اور اگر لام تاکید کو جزو کلمہ تسلیم نہ کیا جائے بلکہ یہ کلمہ سے زائد ہو تو کلمہ کی ابتداء ہمزہ سے ہو رہی ہے اس لیے ہمزہ بصورت الف لکھا جانا چاہیے تو ان دونوں جہتوں کا لحاظ کرتے ہوئے الف بھی لکھ دیا گیا اور اس کے بعد واو کا بھی اضافہ کر دیا گیا اور اصل یہ ہے کہ زائد حرف کو کلمہ کا جزو نہ مانا جائے اس لیے الف کو پہلے لکھا۔

(دیکھئے اسہل الموارد / ص۱۱۷۔ ۱۱۸)

شیخ موسیٰ بن جار اللہ تحریر فرماتے ہیں:

زیادۃ الالف انسب من زیادۃ الواو لان قیاس رسم الھمز المضموم بعد الفتح الواو وان لم یعتد بالزائد فبالالف والاصل عدم الاعتداد فرسمت بالالف والواو تنبیھا علی جواز الامرین وقدمت الالف لان الاصل عدم الاعتداد۔

(شرح العقیلۃ / ص: ۴۷)

(۳)ہمزہ جب ابتدائے کلمہ میں ہو تو اسے محقق کر کے پڑھا جا تا ہے اس میں تخفیف نہیں کی جاتی اور جب درمیان کلمہ میں آئے تو اس میں تخفیف و تسہیل کے اصول پر بھی عمل کیا جاتا ہے چونکہ ’’لاصلبنکم‘‘ کو تسہیل بین الہمزۃ والواؤ کے ضابطہ کے مطابق بھی پڑھا جا سکتا تھا تو اس تخفیف کی طرف اشارہ کرنے کیلئے واو کا اضافہ کر دیا گیا تاکہ اس مقام پر’’ تسہیل بین الہمزۃ والالف ‘‘کی بجائے ’’تسہیل بین الہمزۃ والواؤ ‘‘کے اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے کلمہ کا تلفظ کیا جا سکے (دیکھئے الخط العثمانی فی الرسم القرآنی / ص:۹۲ ، رسم المصحف لغانم قدوری / ص : ۳۸۵)