+(00) 123-345-11

اسٹاک ایکسچینج میں کاروبار کرنا جائز ہے یا نہیں؟ اگر جائز ہے تو مطلقاً جائز ہے یا شرائط کے ساتھ نیز شیئرز کی خرید و فروخت مطلقاً جائز ہے یا شرائط کے ساتھ؟

اسٹاک ایکسچینج میں شیئرز کی خرید و فروخت کا کاروبار کرنا مندرجہ ذ یل شرائط کے ساتھ جائز ہے۔

(۱) پہلی شرط یہ ہے کہ جس کمپنی کے شیئرز کی خرید و فروخت ہو رہی ہے اس کمپنی کا بنیادی کاروبار حرام نہ ہو مثلاً وہ سودی بنک، شراب کا کاروبار کرنے والی کمپنی یا سود و قمار پر مبنی انشورنس کمپنی نہ ہو، ورنہ ایسی کمپنی کے شیئرز کی خرید و فروخت کسی حال میں بھی جائز نہیں۔

(۲) دوسری شرط یہ ہے کہ اس کمپنی کے تمام اثاثے اور املاک، سیال اثاثوں (Liquid Assets) یعنی نقد رقم کی شکل میں نہ ہوں، بلکہ اس کمپنی نے کچھ فکسڈ اثاثے (Fixd Assets) حاصل کر لیے ہوں، مثلاً اس نے بلڈنگ بنا لی ہو یا زمین خرید لی ہو وغیرہ، اگر کسی کمپنی کے تمام اثاثہ جات ابھی سیال یعنی نقد رقم کی شکل میں ہوں تو اس صورت میں اس کمپنی کے شیئرز کو فیس ویلیو (Face Value) سے کم یا زیادہ میں فروخت کرنا جائز نہیں، بلکہ برابر سرابر خریدنا ضروری ہوگا۔

(۳) تیسری شرط یہ ہے کہ شیئرز کو آگے فروخت کرنے سے قبل اس کو اپنے قبضہ میں لانا ضروری ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ شیئرز خریدنے کے بعد اس کی ڈیلیوری (Dilivery) ضروری ہے جو عموماً تین دن کے بعد ہوتی ہے اس سے قبل شیئرز کو آگے بیچنا درست نہیں۔

(۴) جس کمپنی کا بنیادی کاروبار حلال ہو مگر وہ کمپنی کچھ سودی لین دین بھی کرتی ہو تو اس کے سودی معاملات کے متعلق خط بھیج کر یا سالانہ میٹنگ میں آواز اٹھائی جائے، اور ان معاملات کے بارے میں اپنی عدم رضا کا اظہار کیا جائے۔

(۵) جب نفع تقسیم ہو تو (Income Statement) کے ذریعے معلوم کیا جائے کہ آمدنی کا کتنے فیصد سودی ڈپازٹ سے حاصل ہوا ہے؟ جس قدر نفع سودی ڈیپازٹ سے حاصل ہوا ہے اس کو ثواب کی نیت کے بغیر صدقہ کر دیا جائے۔ (مزید تفصیل کیلئے ملاحظہ ہو حضرت مفتی تقی عثمانی مدظلہ کا رسالہ ’’شیئرز کی خرید و فروخت‘‘)۔