+(00) 123-345-11

کیا آپ سورۂ ملک کی آیت نمبر ۲ کی تفصیل بتائیں گے کہ میرا وجود میرے لیے دنیا میں آزمائش ہے کیا اللہ تعالیٰ ہمارا یہاں امتحان لے رہے ہیں۔ کیا اللہ تعالیٰ کو پتہ نہیں کہ اس کی مخلوق کیا کرے گی؟ اگر وہ جانتے ہیں تو پھر امتحان لینے کا کیا مقصد ہے؟

اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں مختلف مواقع پر یہ فرمایا کہ ’’تاکہ میں جان لوں‘‘ حالانکہ اللہ تعالیٰ تو ہر چیز کو جانتے ہیں اس سوال کے جواب میں مفسرین نے فرمایا ہے کہ یہاں علم سے مراد علم مشاہدہ ہے یعنی جو باتیں خدا تعالیٰ کے علم میں ہیں ان کا اظہار کروانا مقصود ہے اور آزمائش یا امتحان کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ خدا کو پہلے کیفیت و استعداد کا علم نہ تھا تو امتحان سے اس کا اندازہ ہوا بلکہ اس امتحان کے متنوع مقاصد اور کثیر حکمتیں ہو سکتی ہیں جو خدا کے علم میں ہیں جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ حاضرین پر اس کی استعداد کا اظہار ہو جس سے سب کو اس کی لیاقت و عدم لیاقت کا پتہ چل سکے اور اس کی جزاء کی مناسبت معلوم ہو سکے وغیرہ۔ نیز سزاء و جزاء کامدار انسان کے اپنے عمل اور اختیار پر ہے البتہ اللہ تعالیٰ اپنے علم کامل کی وجہ سے یہ جانتے ہیں کہ کون شخص کیا عمل کرے گا اور بندہ جب خدا تعالیٰ کے علم کے مطابق اپنے اختیار سے وہی عمل کرتا ہے جو خدا تعالیٰ کے علم میں تھے تو اللہ تعالیٰ کے علم کا ظہور ہو جاتا ہے۔