+(00) 123-345-11

مجھے کسی نے بتایا ہے کہ سودی کھاتے لکھنا شرعی طور پر حدیث کی رو سے ممنوع ہے۔ البتہ اس کا اطلاق ان پر نہیں ہوتا جو بعد میں کھاتے لکھتے ہیں اور خود سودی سودا بازی میں شامل نہیں ہوتے۔ کیا کھاتہ لکھنے والے اصحاب اس امتناعی حکم سے بچے رہتے ہیں۔

حدیث پاک میں سودی معاملہ لکھنے والے پر لعنت آئی ہے۔ یہ وعید عام ہے ۔اور ہر اس شخص پر صادق آتی ہے جو سودی معاملہ کا کسی بھی طرح معاون ہو خواہ وہ شروع میں سودی معاملہ لکھے یا بعد میں اس کی جانچ پڑتال کرے۔ اس لئے اکائونٹنٹ اور بعد میں سودی حساب کرنے والے بھی اس وعید میں داخل ہیں۔

لما فی ’’فتاوی اللجنۃ الدائمۃ‘‘:

حدیث لعن کاتب الربا عام یشمل کاتب وثیقتہ الاولیٰ و ناسخھا اذا بلیت ومقید المبلغ الذی فی دفاتر الحساب والمحاسب الذی حسب نسبۃ الربا او ارسلھا الی المودع ونحو ذلک (۵؍۱۵)