+(00) 123-345-11

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ’’الضامن کمپنی‘‘ کی چھوٹی سطح کے تاجروں کے لئے بنیاد رکھی گئی ہے ۔ جس نے اس کمپنی سے مشینری خریدنی ہو اس کا طریقہ یہ ہوگا کہ ہم ’’الضامن کمپنی‘‘ کی تمام شرائط پر جب پورے اتریں گے تو پھر کمپنی ہمیں یہ مشینری خرید کردے گی جس کا کچھ ایڈوانس بطور رقم ہمیں پہلے جمع کرانی ہوگی اور باقی رقم اقساط کے ساتھ اس طور پر ادا کریں گے کہ مخصوص مدت میں قیمت بمع نفع کمپنی کو مل جائے گی اور وہ مشینری ہماری ملکیت ہو جائے گی کیا اس طرح کا معاملہ مذکورہ کمپنی کے ساتھ کرنا شرعاً جائز ہے یا نہیں اگر جواب نہیں میں ہے تو اس کی جائز متبادل صورت کی طرف ہماری رہنمائی فرمائیں۔

سوال کی ظاہری عبارت اور اس کے ساتھ منسلکہ ’’الضامن کمپنی ‘‘ کے کتابچہ کا بغور مطالعہ کیا گیاجس سے معلوم ہوا کہ مذکورہ کمپنی کے لیزنگ (Leasing) کے طریقہ کار کے اندرکچھ شرعی خرابیاں پائی جاتی ہیں جن کی وجہ سے لیزنگ (Leasing) کا یہ طریقہ شرعاً صحیح نہیں ہے وہ خرابیاں درج ذیل ہیں۔

1 ۔ کتاب میں لکھا ہے کہ ’’کمپنی آپ کی ضرورت کے مطابق چھوٹی یا بڑی مشینری اور دوسرا اثاثہ مثلاً گاڑی وغیرہ آپ کو خرید کر دیتی ہے‘‘ جس سے معلوم ہوتا ہے، کہ اجارہ (Leas) پر دیتے وقت وہ چیز کمپنی کی ملکیت میں نہیں ہوتی جبکہ شرعاً اجارہ (Leas) کے صحیح ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اجارہ کا عقد کرتے وقت چیز مؤجر کی ملکیت میں ہو۔

-2 اس بات کی وضاحت کر دی جاتی ہے کہ مدت اجارہ ختم ہونے کے بعد وہ چیز خود بخود کلائنٹ کی ملکیت میں آجائے گی ا س عقد اجارہ کے اندر دوسرے عقد کا ذکر کر کے ایک عقد) (Agreement کو دوسرے کے ساتھ مشروط کر دیا گیا ہے شرعاً یہ بھی صحیح نہیں ہے۔

لہٰذا سوال میں ذکر کردہ لیزنگ کا طریقہ (Methood of Leasing) ان خرابیوں کی وجہ سے فاسد ہے۔

تاہم اس کی متبادل صورت یہ ہو سکتی ہے کہ پہلے کمپنی اور کلائنٹ آپس میں معاہدہ کر لیں کہ

(۱) عقد اجارہ سے پہلے کلائنٹ کمپنی کو بطور ڈیپازٹ یا ایڈوانس اتنی رقم دے گا۔

(۲) وہ چیز ایک مقررہ مدت تک (جو باہمی رضا مندی سے طے ہو جائے) کلائنٹ کو اجارہ پر دے گی اور اس کا کرایہ بھی باہمی رضا مندی سے طے ہو) مقررہ مدت کے اختتام پر وہ چیز کلائنٹ کو ایک نئے عقد (New Agrement) (بہت کم قیمت پر یا ہبہ(Gift) وغیرہ سے کلائنٹ کی ملکیت میں منتقل ہو جائے گی۔

اس معاہدہ کے بعد کمپنی مطلوبہ چیز خرید کر اس پر قبضہ کرنے کے بعد کلائنٹ کو طے شدہ معاہدہ کے مطابق اجارہ پر دے دے اور اس کے اندر کسی دوسرے عقد کا ذکر نہ کیا جائے یہاں یہ بات یا د رہے کہ مدت اجارہ کے دوران وہ چیز کمپنی کی ملکیت میں رہے گی جیسا کہ کتابچہ میں اس کی صراحت بھی ہے اس لیے اس دوران اگر چیز کلائنٹ کی کسی کوتاہی اور غفلت یا زیادتی کے بغیر ضائع ہو جاتی ہے یا اس کا کوئی نقصان ہو جاتا ہے یا ایسے اخراجات کی ضرورت پڑتی ہے جن کا اس چیز کی ذات سے تعلق ہے تو تمام تر ذمہ داری کمپنی پر ہوگی کلائنٹ اس کا ذمہ دار نہ ہو گا البتہ ایسے اخراجات جو چیز کو استعمال کرنے سے متعلق ہوں وہ کلائنٹ خود برداشت کرے گا اسی طرح جب مدت اجارہ ختم ہو جائے تو اس کے بعد ایک نئے عقد کے ذریعے و ہ چیز کلائنٹ کی ملکیت میں دے دی جائے۔

مذکورہ بالا شرائط کو ملحوظ رکھتے ہوئے اگر کمپنی سے لیزنگ کا معاملہ کریں تو شرعا ً جائز ہے ورنہ جائز نہیں ہو گا۔

وفی ’’مسند الامام احمد بن حنبلؒ‘‘

عن ابی ہریرۃ قال: نھی رسول عن بیعتین فی بیعۃ الخ (رقم الحدیث:۹۳۰۱ ، ’’مسند ابی ھریرۃ‘‘

وفی ’’مصنف عبدالرزاق: ۔

عن ابن مسعود قال: الصفقتان فی الصفقۃ- قال عبداللہ لاتحل الصفقتان فی الصفقۃ، رقم الحدیث : ۱۴۶۳۷ ، ۱۳۹/۸

وفی ’’مجمع الزوائد‘‘ : ۔

عن عبداللہ بن مسعود قال: نھی رسول اللہ ا ان صفقتین فی صفقۃ واحدۃ قال سماک الرجل یبیع البیع فیقول ھو بنساء بکذا وکذا (رقم الحدیث: ۶۲۸۲، ۱۵۱/۴)

وفی ’’الکتاب المصنف‘‘:

عن ابن مسعود: صفقتان فی صفقۃ ربا (رقم الحدیث ، ۲۰۴۵۲ ، ۳۱۳/ ۴)

وفی ’’نیل الاوتار‘‘

عن عبدالرحمان نھی النبی ا عن صفقتین فی صفقۃ ۶/۱۶۲)

وفی ’’الفقہ الاسلامی وادلتہ‘‘ : ۔

لقد ثبت عن النبی ا اللہ علیہ وسلم : النھی عن بیعتین وعن شرطین فی بیع۔ (۵/۳۴۶۵)