+(00) 123-345-11



(۱)زید نے بکر کو بکری اس بنیاد پر دی کہ ایک سال یا دو سال بکری بکر کے پاس رہے گی اخراجات بکر برداشت کرے گا بکری کی نسل زید اور بکر میں نصف نصف تقسیم ہو گی ایسی بکری کی نسل میں قبل تقسیم کے کوئی تیسرا آدمی بکر سے بکرا خریدکرے تو اس کی قربانی جائز ہو گی یا نہیں؟

(۲)اگر زید خود بکر کا حصہ خرید لے اور اس کے اپنے نصف اور بکر سے خریدے ہوئے نصف کی قربانی کرے تو جائز ہو گی یا نہیں اگر جائز نہیں تو قربانی واجب الاعادہ ہوگی یا نہیں اگر واجب الاعادہ نہیں توثواب اور برکات قربانی حاصل ہو گی یا نہیں شراکت کی مذکورہ صورت صحیح ہے یا نہیں؟

صورت مسؤلہ میں زید نے بکر کے ساتھ جو عقدِ اجارہ کیا ہے شرعاً یہ عقد فاسد اور ناجائز ہے اس بکری کی نسل میں بکر کا کوئی حق نہیں بلکہ تمامتر نسل زید کی ملکیت ہے البتہ بکر اپنے حق خدمت اور اس پر آنے والے خرچہ کے بقدر اجرت مثل زید سے وصول کرے گا اور بکر چونکہ پیدا ہونے والی نسل کا مالک نہیں اس لیے اگر اصل مالک (یعنی زید) کی اجازت سے یہ جانور خرید کر قربانی کی گئی تو قربانی ادا ہو گئی ورنہ ادا نہیں ہوئی۔

ولا تجوز اجارۃ الشجر علی ان الثمر للمستأجر وکذلک لو استاجر بقرۃ او شاۃ لیکون اللبن اوالولد لہ (ھندیۃ / ۴ :۴۴۳) ولو استاجر عبدا بنصف ربح ما یتجر او رجلا یرعی غنما بلبنھا او بعض لبنھا او صوفھا لم یجز ویجب اجر المثل (ھندیۃ / ۴:۴۴۵) (وحکم الاول) وھو الفاسد(وجوب اجر المثل بالاستعمال بخلاف الثانی ولا تملک المنافع بالاجارۃ الفاسدۃ بالقبض بخلاف البیع الفاسد) فان المبیع یملک فیہ بالقبض بخلاف فاسد الاجارۃ حتی لوقبضھا المستأجر لیس لہ ان یؤجرھا (الدر المختار/ ۶: ۴۵- ۴۶) ولو اودع رجل رجلا شاۃ فضحی بھا المستودع عن نفسہ یوم النحر فاختار صاحبھا القیمۃ ورضی بھا فاخذھا فانھا لا تجزیٰ المستودع من اضحیتہ بخلاف الشاۃ المغصوبۃ والمستحقۃ ووجہ الفرق ان سبب وجوب الضمان ھھنا ھو الذبح والملک ثبت بعد تمام السبب وھو الذبح فکان الذبح مصادفا ملک غیرہ فلا یجزیہ بخلاف الغاصب فانہ کان ضامنا قبل الذبح لوجود سبب وجوب الضمان وھو الغصب السابق فعند اختیار الضمان او ادائہ یثبت الملک لہ من وقت السبب وھو الغصب ۔ فالذبح صادف ملک نفسہ فی کل جواب عرفتہ فی الودیعۃ فھو الجواب فی العاریۃ والاجارۃ بان استعار ناقۃ او ثورا او بعیرا واستاجرہ فضحی بہ انہ لا یجزیہ عن الاضحیۃ سواء اخذھا المالک او ضمنہ القیمہ لانھا امانۃ فی یدہ و انما یضمنھا بالذبح فصار کالودیعۃ (البدائع / ۵: ۷۷، وکذا فی العالمگیریۃ/ ۵:۳۰۳) لو غصب من رجل شاۃ فضحی بھا لا یجوز وصاحبھا بالخیار ان شاء اخذھا ناقصۃ وضمنہ النقصان وان شاع ضمنہ قیمتھا حیۃ فتصیر الشاۃ ملکا للغاصب من وقت الغصب فتجوز الاضحیۃ استحسانا وکذا لو اشتریٰ شاۃ فضحی بھا ثم استحقھا رجل فان اجاز البیع جاز وان استرد الشاۃ لم یجز کذا فی شرح الطحاوی (ھندیۃ / ۵: ۳۰۳)

(۲)چونکہ زید پیدا ہونے والی نسل کا خود ہی مالک ہے اور بکر کا اس میں کوئی حصہ نہیں اس لیے زید کی قربانی بکر سے کسی قسم کی خرید کے بغیر بھی ادا ہو جائے گی۔