+(00) 123-345-11

کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں نے ایک جگہ ملازمت اختیار کی تھی اور چھ مہینے کام کیا ہر مہینے مجھے تنخواہ ملتی رہی جب ساتواں مہینہ شروع ہوا تو 13دن گزرنے کے بعد مجھے میرے سیٹھ صاحب نے کہا کہ پرانا آدمی واپس آگیا ہے اس لیے ہم آپ سے معذرت کرتے ہیں تو میں نے پورے مہینہ کام کرنے اور ملازمت کرنے کو کہا کہ مہینہ پورا ہو جائے توپھر چلا جاؤں گا ورنہ مجھے پورے مہینہ کی تنخواہ دی جائے ا س پر انہوں نے 13دن کی تنخواہ دینے کی حامی بھری میں نے انکار کر دیا۔

اب پوچھنا یہ ہے کہ کیا سیٹھ صاحب پر پورے مہینے کی تنخواہ لازم ہے یا نہیں جبکہ مہینہ کے درمیان میں ملازمت ان کی وجہ سے چھوڑنی پڑی ہے میری طرف سے کسی قسم کی کوتاہی نہیں ہوئی۔

اصل سوال کہ جواب سے پہلے تمہید کے طور پر چند باتوں کا معلوم ہونا ضروری ہے۔

(۱) عقدملازمت کو ایسے طریقہ سے ختم کیا جائے جس میں ملازم اور مالک دونوں کی رعایت ہو یعنی نہ ملازم کا نقصان ہو اور نہ ہی مالک کا چنانچہ اسی وجہ سے ملازمت کے شروع میں مدت ملازمت، کام اور تنخواہ کومتعین کرنا اور پھر اسی کے مطابق عمل کرنا ضروری ہے۔

(۲) ماہوار ملازمت کو مہینہ کے دوران ختم کرنے کی دو صورتیں ہیں۔

(۱) ملازم کو کسی ایسی غلطی کی وجہ سے فارغ کیا جائے جو اس کی طرف سے ہو جیسے بددیانتی اور چوری وغیرہ کی وجہ سے ملازم کو فارغ کرنا۔

(۲) ملازم کی طرف سے کوئی کوتاہی نہ ہو اور مالک اس کو فارغ کر دے

پہلی صورت میں عقد ملازمت کو مہینہ کے دوران ختم کرنا جائز ہے اور ملازم اتنے ہی دن کی تنخواہ کا مستحق ہو گا جتنے دن اس نے کام کیا ہے دوسری صورت میں عقد ملازمت مہینہ کے دوران ختم کرنے سے ختم نہیں ہوگا۔

سوال میں ذکر کردہ صورت کے مطابق اگر عقد ملازمت کرتے وقت کسی قسم کا معاہدہ نہیں ہوا تھا اور نہ ہی ملازم کی طرف سے کسی قسم کی کوتاہی پائی گئی ہے تو مہینہ کے دوران عقد ملازمت کو ختم کرنادرست نہیں ہے اگر مالک نے زبردستی فارغ کر دیا ہے جو کہ اس کے لیے صحیح نہ تھاپھر بھی مالک پر مکمل مہینہ کی تنخواہ دینا ضروری ہے ۔

لما فی ’’شرح المجلۃ‘‘ (لخالد الاتاسیؒ)

وان قال احد العاقدین فی اثناء الشھر فسخت الاجارۃ تنفسخ فی نھایۃ الشھر- وان قال فی اثناء الشھر فسخت الاجارۃ اعتبارا من ابتداء الشھرالاٰتی تنفسخ عند حلولہ (۳/۵۸۳)

وکذا فی ’’ دررالحکام‘‘ - (۱/۴۸۱)