+(00) 123-345-11

انتظامیہ کے لوگ امام مسجد، مؤذن و اساتذہ کو اپنا ملازم اور نوکر سمجھتے ہوئے ان کے ساتھ تضحیک آمیز سلوک کرتے ہیں۔ اگر امام مسجد کسی جنازہ ، فاتحہ یا کسی مکان دکان کا افتتاح یا کسی دینی پروگرام میں شرکت کے لئے جائیں تو نماز وں میں غیر حاضری کا وظیفہ کاٹ لیتے ہیں۔ امام صاحب، مؤذن اور مدرسین کی کردار کشی، غلیظ قسم کے الزامات اور امام صاحب کے خلاف پراپیگنڈہ کرنے پر فخر محسوس کرتے ہیں اور الزام غلط ثابت ہونے پر ندامت و شرمندگی بھی محسوس نہیں کرتے۔

کسی عام مسلمان کی توہین کرنا اور اس پر الزام لگانا جائز نہیں تو امام اور مؤذن صاحبان جو قابل قدر دینی فرائض کی انجام دہی سے معاشرہ میں ایک مقام رکھتے ہیں ان کی توہین کرنا اور ان پر جھوٹے الزام لگانا تو بالکل ناجائز اور حرام ہے اس سے باز آنا چاہیے۔

tاما م صاحب اگر جنازہ پڑھانے یاکسی ضروری کام سے کبھی کہیں چلے جائیں تو عرف یہی ہے کہ اس سے ان کی تنخواہ وضع نہیں کی جاتی اس لیے امام صاحب کو پوری تنخواہ دینی چاہیے البتہ اگر امام صاحب کے ساتھ پہلے سے یہ طے ہو کہ ہر نماز میں غیر حاضری سے اس کے بقدر تنخواہ کاٹ لی جائے گی تو پھر کسی نماز کیلئے حاضر نہ ہونے کی وجہ سے اس کے بقدر تنخواہ سے وضع کرنا جائز ہے۔

اذا کان الواقف قدر للدرس لکل یوم مبلٹغًا فلم یدرس یوم الجمعۃ او الثلاثاء لا یحل لہ ان یأخذ ویصرف اجر ھذین الیومین الی مصارف المدرسۃ من المرمۃ و غیرھا بخلاف ما اذا لم یقدر لکل یوم مبلغا فانہ یحل لہ الاخذ وان لم یدرس فیھا للعرف… فحیث کانت البطالۃ معروفۃ فی یوم الثلاثاء والجمعۃ وفی رمضان والعیدین یحل الاخذ وکذا لو بطل فی یوم غیر معتاد لتحریر درس الا اذا نص الواقف علی تقیید الدفع بالیوم الذی یدرس فیہ کما قلنا (شامیۃ ۴: ۳۷۴)