+(00) 123-345-11

ہمارے محلے میں ایک مسجد جو کہ تین منزلہ ہے جس میں مصلی اور منبر سب سے اونچی منزل میں ہے اور ان تینوں منزلوں میں بغیر لائوڈ سپیکر کے آواز بآسانی پہنچنے کا انتظام موجود ہے اس مسجد میں پہلے کثرت سے تبلیغی جماعتیں قیام کرتی تھیں اب بھی اکثر و بیشتر آمدو رفت ہوتی رہتی ہے زیادہ تر نمازی نماز کے لیے مسجد کے سب سے نچلے حصے کو استعمال میں لاتے ہیں لیکن اکثر و بیشتر اوپر بھی کچھ لوگ نماز پڑھتے ہیں۔ اس مسئلے پر تو سب حضرات کا اتفاق ہے کہ نیچے نماز پڑھنا افضل اور بہتر اور زیادہ ثواب رکھتا ہے لیکن نیچے کچھ جگہ موجود ہونے کے باوجود اور جماعت کی صفوں کو نچلے حصے کو چھوڑ کر مسجد کے اوپر کے حصے میں نماز پڑھنا کیسا ہے اس میں اختلاف ہے اور جو کہ شدت اختیار کرتا جا رہا ہے اور دو فریق بن چکے ہیں:

فریق اول یہ کہتا ہے کہ اوپر والوں کی نماز ہوتی ہی نہیں بلکہ اوپر نماز پڑھنے سے بہتر ہے کہ اپنے اپنے گھروں میں نماز پڑھا کریں اور ان کی چند دلیلیں۔

دلیل نمبر ۱، کہ ہم نے بہت سے علماء اور مفتی حضرات سے پوچھا سب نے کہا کہ اوپر نماز ہوتی ہی نہیں۔

دلیل نمبر ۲، جیسے صفوں کے درمیان بڑا راستہ یا نہر حائل ہو جائے تو صفوں میں اتصال نہیں رہتا اسی طرح یہاں بھی اتصال نہ ہونے کی وجہ سے نماز نہیں ہوتی۔

دلیل نمبر ۳، احسن الفتایٰ میں بھی یہ لکھا ہے کہ اوپر والوں کی نماز نہیں ہوتی۔

جب کہ اس کے بالمقابل فریق ثانی یہ کہتا ہے کہ اس بات کو ہم مانتے ہیں کہ نیچے نماز پڑھنا بہتر ہے لیکن یہ بات کہ اوپر والوں کی نماز ہی نہیں ہوتی یا گھر میں پڑھ لینا بہتر ہے۔ اس کو ہم نہیں مانتے اور اس کی مختلف دلیلیں۔

دلیل نمبر ۱، اگر مقتدی مسجد کی چھت پر کھڑا ہو امام مسجد کے اندر تو درست ہے مسجد کی چھت مسجد کے حکم میں ہے۔ (بہشتی زیور مکمل مدلل حصہ نمبر ص ۴۸، ج ۱۱ بحوالہ فتاویٰ عالمگیری عربی ص ۵۵، ج ۱)

دلیل نمبر ۲، مسجد کی چھت پر انفرادی یا جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا جائز ہے۔

(فتاویٰ حقانیہ ص ۱۹۶، ج ۳)

دلیل نمبر ۳، ردالمختار، ص ۶۵۶، ج ۱۔ دلیل نمبر ۴، فتاویٰ قاضی خان ، ص ۹۴، ج ۱۔ دلیل نمبر ۵، آپ کے مسائل اور ان کا حل ج ۲۔

اگر کسی نمازی نے مسجد کے نچلے ہال میں جگہ ہونے کے باوجود جماعت کی صف سے متصل نماز نہ پڑھی بلکہ پچھلی صفوں میں نمازیوں کی صف سے ہٹ کر نماز پڑھ لی یا صورتِ مذکورہ کی طرح پہلی منزل پر نماز پڑھ لی تو اس کی نماز ہو جائے گی لیکن بلاوجہ ایسا کرنا مکروہ ہے اس لیے بہتر اور افضل یہی ہے کہ نمازیوں کی صف کے ساتھ مل کر نماز ادا کی جائے۔

(۱) ’’ولو صلی علی رفوف المسجد ان وجد فی صحنہ مکانا کرہ کقیامہ فی صف خلف صف فیہ فرجۃ وفی ردالمختار، قولہ کرہ لان فیہ ترکالا کمال الصفوف ...... الخ‘‘۔ (ردالمختار مع الدرالمختار ۱/۴۲۱)

(۲) ولو اقتدی بالا مام فی أقصی المسجد والامام فی المحراب فانہ یجوز کذا شرح الطحاوی۔ (ہندیۃ ۱/۸۸ باب الامامۃ)

(۳) ولو قام علی سطح المسجد واقتدی بامام فی المسجد فھو علی ھذا التفصیل ایضاً فکان للسطح باب فی المسجد ولا یشتبہ علیہ حال الامام صح الاقتداء فی قولھم وان لم یکن لہ باب فی المسجد لکن لا یشتبہ علیہ حال الامام صح الاقتداء ایضاً وان اشتبہ علیہ صلاتہ۔ وان الامام لایصح ....... لان بیت المسجد وبین سطح الدار کثیر النخل فصار المکان مختلف اما فی البیت مع المسجد لم یخلل الاالحائط فلم یختلف المکان و عند اتحاد المکان یصح الاقتداء الا اذا اشتبہ علیہ حال الامام۔ (قاضیخان ۱/۹۴)"