+(00) 123-345-11

مفتی صاحب مسئلہ یہ ہے کہ بنک والوں نے جو کریڈٹ کارڈ کی سہولت دے رکھی ہے اس کے بارے میں دین کیا کہتا ہے۔

٭ اگر ہم کریڈٹ کارڈ کے ذریعے شاپنگ کرتے ہیں تو دکاندار مشین چارجز کے نام پر کل رقم کا اڑھائی فیصد وصول کرتا ہے بنک ہمیں رقم لوٹانے کے لیے 52 دن کی مہلت دیتا ہے اگر ہم مقررہ دنوں میں رقم جمع کروا دیتے ہیں تو بنک ہم سے برائے نام اضافہ رقم (مثلاً 1000 روپے کی خریداری پر تقریباً چار یا پانچ روپے جو کہ صارف سے طے شدہ ہیں) وصول کرتا ہے اس کے بارے میں معلوم کرنا ہے کہ کیا یہ سود کے زمرے میں آتا ہے اس ضافی رقم کو بنک ’’سروس چارجز‘‘ کا نام دیتا ہے۔

٭ اس کے علاوہ اگر ہم کوئی چیز 1000 روپے میں خریدتے ہیں تو مندرجہ بالا صورت کے علاوہ ہمیں یہ بھی سہولت دی جاتی ہے کہ ہم یہ پیسے قسطوں میں جمع کروا دیں اس صورت میں بنک ہم سے اضافی رقم کا مطالبہ کرتا ہے جسے صارف اپنی آسانی اور سہولت کے پیش نظر ادا کر دیتا ہے (مثلاً 1000 کی جتنی زیادہ قسطیں کروائیں گے اضافی رقم اسی حساب سے بڑھتی جائے گی)

٭ اگر ہم کریڈٹ کارڈ پر نقد رقم وصول کرتے ہیں تو اس پر بھی ہمیں پہلے سے طے شدہ اضافہ رقم ادا کرنی پڑتی ہے۔

٭ میں نے کسی سے پوچھا تھا تو انہوں نے مثال کے ذریعے بتایا تھا کہ ہم کو گھروں کا بجلی کا بل، پانی کا بل، گیس کا بل، ٹیلیفون کا بل جو آتا ہے اگر ہم مقررہ وقت پر بل جمع نہ کرائیں تو اس پر بھی ہمیں جرمانی ادا کرنا پڑتا ہے تو یہ جرمانہ کس زمرے میں آتا ہے۔ حالانکہ یہ طے شدہ نہیں ہوتا کہ ہمیشہ 500 روپے کے بل پر جرمانہ 50 روپے ہی ہوگا۔ جرمانے کی رقم میں کمی یا زیادتی ہوتی رہتی ہے جو صارف کے علم میں بل آنے پر آتا ہے۔ اگر معاملات طے کرنے کی بات ہے تو جو سوئی گیس، واپڈا وغیرہ بلوں کے جرمانے طے شدہ نہیں ہوتے اس پر آپ کیا کہیں گے۔ اگر ہم قسطوں پر کوئی سامان لیتے ہیں تو اس چیز کی جو قسط ہوتی ہے اس کے بارے میں دکاندار سے طے ہوتا ہے کہ وہ اس چیز پر ہم سے اتنے پیسے وصول کرے گا یہ اضافی رقم کس مد میں شمار ہوگی۔

(مثلا ایک موٹر سائیکل دکاندار نقد 50,000/- روپے میں فروخت کرتا ہے لیکن اگر وہی موٹر سائیکل ہم قسطوں پر خریدیں تو وہ اس کی قیمت 65,000/- روپے وصول کرتا ہے) برائے مہربانی اس مسئلے پر تفصیلی روشنی ڈالیں۔

کریڈٹ کارڈ کے حوالے سے حکم شرعی میں یہ تفصیل ہے کہ چونکہ کریڈٹ میں ابتداء ہی سے قرض پر سود کا معاہدہ ہوتا ہے اور ایک متعینہ مدت کے بعد سود چارج ہونا شروع ہو جاتا ہے اس لیے عام حالات میں کریڈٹ کارڈ خریدنا اور اسے استعمال کرنا شرعاً درست نہیں ہے، البتہ اگر کسی شخص کیلئے کریڈٹ کارڈ کا استعمال ناگزیر ہے جیسا کہ بعض ممالک میں کریڈٹ کارڈ ہی استعمال ہوتا ہے اور کریڈٹ کارڈ کے علاوہ لین دین میں غیر معمولی مشکلات پیش آتی ہیں تو اس صورت میں اس شخص کیلئے کریڈٹ کارڈ لینا اور اس کو استعمال کرنے کی اس شرط کے ساتھ گنجائش ہے کہ وہ متعینہ مدت سے پہلے پہلے تمام بلوں کی ادائیگی لازماً کر دے تاکہ سود کی ادائیگی نہ کرنی پڑے۔

٭کریڈٹ کارڈ کے اجراء پر کارڈ ہولڈر سے سروس چارجز لینا درست ہے۔ اسی طرح دوکاندار کیلئے مشین کے چارجز لینا بھی درست ہے۔

٭بروقت ادائیگی نہ کرنے پر اضافی رقم بلا شبہ سود ہے اور ناجائز ہے۔

٭کریڈٹ کارڈ سے نقد رقم ڈرا کروانا شرعاً جائز نہیں۔

(کریڈٹ کے حوالے سے مذکورہ تفصیل سے آپ کے تمام سوالات کے جوابات ہو گئے)۔

قسطوں پر خرید و فروخت میں ادھار کی وجہ سے چیز کی جو قیمت بڑھائی جاتی ہے وہ سود نہیں ہے قیمت ہی کا حصہ ملا کر جائز ہے بشرطیکہ ایک مرتبہ قیمت طے ہونے کے بعد اس میں کمی زیادتی نہ کی جائے اور ادائیگی بروقت نہ کرے پر کوئی جرمانہ عائد نہ کیا جائے اور ادھار کی مدت بھی متعین ہو جائے۔"