+(00) 123-345-11

میں ایک بنک میں ملازمت کرتا ہوں مجھے قرآن و حدیث کی روشنی میں رہنمائی درکار ہے کہ کچھ لوگوں کا خیال ہے بنک کا منافع ’’سود‘‘ ہے اور حرام ہے جب کہ میرا یہ خیال ہے کہ افراطِ زر کے باعث جب کہ ہمارے اپنے پیسے کی قیمت پندرہ فیصد ہر سال کم ہو جاتی ہے جو کہ سرکاری اختیار میں ہے اور اگر بینک دس فیصد تک یا زائد ازالہ کرتا ہے تو پھر افراطِ زر کے نقطہ نگاہ سے یہ منافع جائز ہے یا ناجائز وضاحت فرمائیں؟

قرض کی ادائیگی کے سلسلے میں شریعت کا ضابطہ یہ ہے کہ آپ نے جو قرض کسی سے لیا ہے اسی کی مثل (برابر) ادا کرنا ہوگا مزید یہ کہ قرآن و سنت کے دلائل میں غور کرنے اور لوگوں کے معاملات کا مشاہدہ کرنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ قرض کی واپسی میں جو برابری شریعت میں مطلوب ہے وہ مقدار اور کمیت میں مطلوب ہے قیمت اور مالیت میں مطلوب نہیں جس کے تفصیلی دلائل مفتی تقی عثمانی صاحب نے فقہی مقالات میں تحریر فرمائے ہیں ذیل میں ایک حدیث بطور دلیل ذکر کی جاتی ہے۔

سنن ابودائود کتاب البیوع میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت موجود ہے جس میں اس بات کا تذکرہ ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ نے رسول اللہ سے سوال کیا تھا میں اشیاء کو دراہم کے بدلے فروخت کرتا ہوں اور اس کے عوض بعد میں دینار وصول کر لیتا ہوں اور کبھی دینار کے عوض فروخت کر کے دراہم لے لیتا ہوں تو اس پر آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ اس طرح معاملہ کرنے میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ اسی روزکے بھائو کے برابر لو اور تم دونوں کے درمیان اس حالت میں جدائی نہ ہو کہ تمہارے درمیان کوئی لین دین باقی ہو۔

اس حدیث سے یہ بات واضح ہوئی کہ دراہم اور دینار کے تبادلے میں ادائیگی کے دن کی قیمت کا اعتبار ہے جس روز ذمہ میں رقم واجب ہوئی تھی اس دن کی قیمت کا اعتبار نہیں اور اگر قرضوں میں برابری قیمت اور مالیت کے اعتبار سے معتبر ہوتی تو ان کے ذمہ دینار کی وہ قیمت واجب ہوتی جو قیمت ذمہ میں واجب ہونے کے دن تھی۔ اس سے معلوم ہوا کہ قرض کی صورت میں اسی قرض کی مقدار میں ادائیگی ضروری ہے مقدار میں زیادتی سود ہوگی لہٰذا افراط و تفریط زر کی وجہ سے ادائیگی قرض میں کمی زیادتی قطعاً جائز نہیں۔"