+(00) 123-345-11

ٹی پر ایک مشہور عالم جاوید احمد غامدی کو سنا جو کہ اس بات کا جواب دے رہے تھے کہ کسی مولوی صاحب نے رات کو سپیکر پر نعت پڑھی جس سے محلہ داروں کو بڑی تکلیف پہنچی اور انہوں نے کہا کہ ایسا کام جس سے دوسروں کو تکلیف ہو کبیرہ گناہ ہے سوال یہ ہے کہ ان کا ایسا کہنا کہاں تک صحیح ہے؟ علاوہ ازیں سچی بات کسی سے کی جائے تو بھی تو سننے والوں کو بڑی تکلیف ہوتی ہے تو کیا یہ بھی کبیرہ گنا ہے؟ ایک شیعہ آدمی نے کہا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر حضرت علیؓ تمام انبیاء سے افضل ہیں تو میں نے جواب میں کہا کہ قرآن میں صاف لکھا ہے کہ نبی جس کے نام قرآن میں لکھے گئے ہیں باقی سب سے افضل ہیں اور صرف نبی کو ہی نبی پر فضیلت ہوتی ہے اسی طرح میں نے کہا کہ آپ لوگوں پر علماء کفر کے فتوے لگاتے ہیں آپ کو کیا اس بارے میں کوئی سوچ نہیں آتی کہ ایسا کیوں ہے اور یہ کہ حضرت علیؓ آپ سے اپنے واسطے کا انکار کر دیں گے تو پتہ نہیں کچھ ناراض سے لگنے لگے لیکن بعد میں ٹھیک ہو گئے۔ تو کیا اس طرح سے میں نے گناہ کبیرہ کا ارتکاب کیا اور مجھے ان سے معافی مانگنی چاہیے کیونکہ لگتا ہے کہ ان کو میرا اس طرح صاف صاف اور تیز لہجے میں کہنا اچھا نہیں لگا۔

لائوڈ سپیکر میں بلند آواز سے کچھ بھی پڑھنا جس سے لوگوں کے آرام میں خلل آئے اور بیمار مریض لوگوں کو تکلیف اور پریشانی ہو گناہ ہے اور اس گناہ کا سبب یہ نہیں کہ ان کو حق سنایا جا رہا ہے جس کی وجہ سے وہ ناراض ہو رہے ہیں (جیسا کہ سائل کو اشتباہ ہو گیا ہے) بلکہ اس کا سبب بلاوجہ آواز کو بلند کرنا ہے جس سے اہل محلہ کی سمع خراشی ہوتی ہے ان کے سکون میں خلل آتا ہے رہی یہ بات کہ کوئی انسان حق بات سن کر ناراض ہونے لگے تو یہ کسی قسم کا گناہ نہیں ہے بلکہ اگر نیت خالص ہو تو حق سنانے پر اللہ تعالیٰ اجر و ثواب عطا فرمائیں گے بشرطیکہ حق سنانے کا طریقہ بھی درست ہو، جب کہ لائوڈ سپیکر میں بلند آواز کے ساتھ پڑھنا لوگون کے آرام اور سکون میں خلل انداز ہونے کی وجہ سے اپنی بات کو غلط طریقہ سے سنانا ہے اس وجہ سے یہ جائز نہیں ہے۔

(المسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ (الحدیث)

(الرد المختار ۱/۴۳۶)"