+(00) 123-345-11

انٹرنیٹ پر میری کسی قادیانی سے بحث ہوئی اور ایک قادیانی نے حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے دو حوالے دئیے کہ اللہ تعالیٰ نے بد دُعا کی اجازت دی ہے کیونکہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بد دُعا دی، صحیح بخاری سے ان حدیثوں کا انگریزی ترجمہ تحریر ہے (والیم ۱، کتاب ۸، نمبر ۴۲۷) حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ جب نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال کا وقت قریب پہنچا تو آپ نے خمیصہ اپنے چہرے مبارک پر لے لیا گرمی اور سانس میں دقت کے پیش نظر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خمیصہ کو اتارتے ہوئے فرمایا اللہ یہودیوں اور عیسائیوں کا برا کرے جنہوں نے اپنے پیغمبروں کی قبروں پر عبادت گاہیں تعمیر کر لیں۔ (والیم ۱، کتاب ۸، نمبر ۴۲۸)

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’اللہ تعالیٰ یہودیوں کا برا کرے جنہوں نے اپنے پیغمبروں کی قبروں پر عبادت گاہیں تعمیر کرلیں‘‘ اس قادیانی نے کہا کہ ان احادیث میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے بد دُعا کی مہربانی فرما کر ان احادیث کی تصدیق فرمائیں اور ان احادیث کے بارے معلومات دیں کہ ان کے کیا مطلب ہیں؟ اور کسی پر لعنت کرنے کی کیا حد ہے؟

کسی برائی پر عمومی الفاظ میں لعنت کرنا جائز ہے مثلاً ’’لعنۃ اللہ علی الکذبین‘‘ جھوٹ بولنے والوں پر اللہ کی لعنت ’’لعنۃ اللہ علی الظلمین‘‘ یہود و نصاریٰ پر اللہ کی لعنت یا ’’لعنۃ اللہ علی الیہود و نصاریٰ اتخذوا قبور انبیاء ھم مساجد‘‘ یہود و نصاری پر اللہ کی لعنت جنہوں نے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا۔ لعنت کے اس طرح کے عمومی الفاظ اور ان کے ذریعے کسی طبقہ کی برائی کی نشاندہی کرتے ہوئے ان کی بدعملیوں پر لعنت بھیجنا جائز ہے جس کا ثبوت قرآن و سنت میں موجود ہے، لیکن کسی خاص شخص کا نام لے کر اس پر لعنت کرنا یا کسی مخصوص طبقہ پر لعنت بھیجنا اس وقت جائز ہو سکتا ہے کہ جب ان کا کفر پر مرنا یقینی طور پر معلوم ہو جائے جیسے کہ ابولہب کا کفر، مگر یہ بات صرف وحی الٰہی سے معلوم ہو سکتی ہے اس کے بغیر اس کا علم نہیں ہو سکتا، اور وحی کا دروازہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بند ہو چکا ہے لہٰذا اس طریقہ سے کسی پر لعنت بھیجنا جائز نہیں ہے۔ چہ جائیکہ اس پر لعنت کی گردان پڑھ دی جائے۔ جیسا کہ مرزا قادیانی نے کیا ہے کہ ایک کتاب کے صفحات صرف لعنت لعنت، اللعنۃ اللعنۃ لکھ کر سیاہ کیے ہیں جو ایک ادنیٰ عقل رکھنے والے انسان کے نزدیک بھی انتہائی معیوب بات ہے۔

(شامی ۲۔ ۵۸۷، ۶۳۹)"