+(00) 123-345-11

(۱) پاکستان ایک نظریاتی اسلامی ملک ہے۔ قراردادِ مقاصد سے لے کر قیام پاکستان تک ہر دور میں پاکستانی مسلمانوں کو اکثریت کا یہ پر زور مطالبہ رہا ہے کہ پاکستان میں اسلامی قوانین (حدودلاز) کا نفاذ ہو۔ چنانچہ ۱۹۷۹ء میں اسلامی قوانین یعنی حدود لاز کا نفاذ ہوا۔ نفاذ حد آرڈر (چہارم بابت ۱۹۷۹ء حدود آرڈر یعنی اجراء قانون حد عمل میں لایا گیا اور اس کا جائزہ وفاقی شرعی عدالت، ماہرین قانون، علماء اور مفتیانِ کرام بار بار لے چکے ہیں اور یہ اس وقت ملک میں حدود لاز (اسلامی قوانین) کے نام سے رائج قانون ہے، اس قانون پر سب سے پہلے غیر مسلم اقلیتوں مثلاً عیسائیوں وغیرہ نے اعتراض کیا۔ کیا اسلامی قانون پر اسلامی ملک میں غیر مسلم اقلیتوں کو اعتراض کا حق ازروئے شرع متین حاصل ہے یا نہیں؟۔

(۲) بعض انسانی حقوق کی تنظیموں و اداروں نے بھی اسی انداز میں اسلامی قوانین پر اعتراض کیا اور امتیازی قانون کہا۔ ’’اگر کوئی اسلامی قوانین کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کہے تو اس بارے میں شرع متین کا کیا حکم ہے‘‘۔

(۳) حال ہی میں پارلیمنٹ کے کچھ ممبروں نے قومی اسمبلی میں ایک بل پیش کیا۔ تحریر یہ ہے کہ ’’چونکہ یہ ایک قرین مصلحت ہے کہ حدود قوانین ۱۹۷۹ء کو منسوخ کیا جائے۔ یہ ایکٹ حدود قوانین تنسیخ ایکٹ ۲۰۰۵ء کے نام سے موسوم ہوگا‘‘ پیش کردہ بل کی کاپی اغراضِ وجوہ اور ممبران کے نام کے ساتھ تفصیلاً منسلک ہے۔ ’’لہٰذا وہ ایسا عمل کرنے والوں کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے اور شرعاً کیا سزا ہے؟‘‘۔ ان تمام مسائل کا تحقیقاتی جواب جلد عنایت فرمائیں شکریہ۔

(۱) اسلامی ملک میں رہنے والے غیر مسلم ذمی حضرات کے لیے اسلامی قوانین کی پابندی لازم ہے اور انہیں اسلامی قوانین پر اعتراض کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں، اگر وہ اسلامی قوانین کو ماننے سے ہی انکار کر دیتے ہیں تو ان کا عہد ذمہ ختم ہو جائے گا اور وہ اسلامی حکومت کے ذمی رعایا نہیں رہیں گے، اور اگر وہ قوانین کو تسلیم کر لینے کے بعد عمل نہیں کرتے تو وہ قانون شکنی کے مجرم ہوں گے، جس پر ان کو مجرموں والی سزا دی جائے گی۔

قال السرخسی: لاخلاف انھم مخاطبون بالایمان والعقوبات والمعاملات فی الدنیا والاخرۃ واما فی العبادات فبالنسبۃ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وکذالک یشترط فی ھذا العقد قبول والتزام احکام الاسلام فی غیر العبادات من حقوق الأدمیین فی المعاملات وغرامۃ المتلفات وکذا ما یعتقدون تحریمہ کالزنی والسرقۃ کما یشترط فی حق الرجال منھم قبول بذل الجزیۃ کل عام (البدائع ۸/۱۱ بحوالہ الموسعۃ الفقیۃ ج ۸، ص ۱۲۳)

وکذالک یشترط فی ھذا العقد قبول والتزام احکام الاسلام فی غیر العبادات من حقوق الآدمیین فی المعاملات وغرامۃ المتلفات وکذا ما یعتقدون تحریمہ الخ۔

قال المالکیۃ ینقض عہد الذمۃ بالمترد علی الاحکام الشرعیۃ باظھار عدم المبالات بھا (موسوعہ ج ۸، ص ۱۳۸)

قولہ بل عن قبولھا الخ ای بل ینتقض عہدہ بالا باء من قبولھا الخ

(شامیہ ج ۴، ص ۱۲۳)

اذا ارتکب احد من اہل الذمۃ جریمۃ من جرائم الحدود کالزنی او القذف اوالسرقۃ اوقطع الطریق یعاقب بالعقاب المحدد لھذہ الجرائم شأنھم فی ذلک شأن المسلمین الاشرب الخمر ............. وھذا عند جمہور الفقہاء فی الجملۃ (موسوعہ ج ۸، ص ۱۳۵)

(۲) اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے جملہ قوانین، انصاف پر مبنی قوانین ہیں، یہ کبھی بھی انسانی حقوق کے خلاف نہیں ہو سکتے اور نہ انہیں امتیازی قوانین کہا جا سکتا ہے، بعض اداروں کا انہیں انسانی حقوق کے خلاف گرداننا ناسمجھی پر مبنی ہے اسلام کا نام لینے والا جو فرد یا افراد اللہ کے بنائے قوانین کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرے گویا کہ وہ بزعم خودیہ تأثر دے رہا ہے کہ قانون بناتے وقت اللہ تعالیٰ نے انسان کے حقوق کا لحاظ نہیں رکھا اور انسان کے حق میں یہ قوانین ظلم و ناانصافی پر مبنی ہیں (معاذ اللہ تعالیٰ) ایسا فرد یا افراد قرآن و سنت کی رو سے دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ اگر وہ فرد یا افراد مسلمان نہیں بلکہ ذمی ہیں تو اس کا حکم تفصیل کے ساتھ جواب نمبر 1 میں بیان ہو چکا ہے۔

(۳) حاکم اعلیٰ اللہ تعالیٰ کی ذات بابرکات ہے جو ہر طرح کی قانون سازی کا مالک ہے، اللہ تعالیٰ نے اپنے قانون کو نافذ کرنے اور ان پر عمل کروانے کے لیے کچھ حضرات کو دنیا میں صاحب اقتدار بنایا ہے، تاکہ وہ اللہ کی سرزمین پر اس کے نظام کو نافذ کریں، ان کو ہر گز یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ اللہ کے احکام کو منسوخ کریں یا ان میں تغیر و تبدل کریں، اللہ کے قانون کو نافذ کرنے کے لیے پارلیمنٹ وغیرہ سے قانون کی منظوری کی ضرورت نہیں، اور نہ اس قانون کے نفاذ کے بعد اسمبلی کو منسوخ کرنے کا حق حاصل ہوتا ہے۔

جن ممبران اسمبلی نے حدود آرڈیننس میں موجود اللہ تعالیٰ کے احکام کی مخالفت کی ہے اور ان کی تنسیخ کے دعویدار ہیں اگر یہ حضرات ان احکام کا سرے سے انکار کرتے ہیں یا انہیں اللہ کا حکم نہیں سمجھتے یا ان قوا نین کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کرتے ہیں اور ان کا مذاق اُڑاتے ہیں تو اس انکار، استہزاد یا دعوائے تنسیخ کی وجہ سے وہ کافر ہو جائیں گے۔

قال اللہ تعالٰی: ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاولئک ھم الکفرون۔ (المائدہ)

عن ابن عباس رضی اللہ عنہما فی تفسیر قولہ تعالٰی ومن لم یحکم ........ قال من حجد ما انزل اللہ فقد کفرو من اقربہ ولم یحکم بہ فھو ظالم فاسق رواہ ابن جریر (تفسیر ابن کثیر تحت تفسیر ھذہ الاٰیۃ)

عن عدی ابن حاتم قال اتیت النبی صلی اللہ علیہ وسلم ........... وسمعتہ یقرأ فی سورۃ براء ۃ ’’اتخذوا احبارھم ورھبا نھم اربابا من دون اللہ والمسیح ابن مریم‘‘ ثم قال اما انھم لم یکونوا یعبدو نھم ولکنھم کانوا اذا احلوالھم شیٔاً استحلواہ واذا حرموا علیھم شیٔاً حرمواہ (تفسیر الجامع لاحکام القرآن تحت تفسیر ھذہ الآیۃ)

اذا انکر الرجل آیۃ من القرآن اوتسخر بآیۃ من القرآن وفی الخزانۃ اوعاب کفر کذافی التتار خانیہ (ہندیۃ ج ۲، ص ۲۶۶) من انکر المتواتر فقد کفرو من انکر المشہور یکفر عند البعض وال عیسی ابن ابان یضلل ولا یکفر۔

(ہندیۃ ج ۲ ، ص ۲۶۵)"