+(00) 123-345-11

میں ایک سنی حنفی مسلمان ہوں میری شادی دس سال قبل پاکستان میں ہوئی میں لندن میں مقیم ہوں میرا ایک پانچ سالہ بیٹا ہے۔ حال ہی میں یعنی جون ۲۰۰۷ء میں میری بیوی نے ۹ سال قبل کے ایک واقعہ کی بنیاد پر طلاق کا کیس دائر کرنے کی تیاری شروع کر دی اور اس کا کہنا ہے کہ اس واقعہ کی بنا پر ہمیں ۹ سال قبل طلاق ہو چکی ہے۔ تفصیل اس کی یہ ہے کہ ۹ سال قبل ایک بحث میں بات بڑھی تو میں نے غصہ سے کہا کہ ’’بس اب یہ شادی ختم ہو چکی ہے کسی کو اپنے گھر سے بلائو وہ آکر تمہیں لے جائے‘‘ اس کے بعد بیوی خود چلی گئی دو ہفتہ بعد شوہر اس کو گھر لے آیا اور وہ نارمل زندگی گذارنے لگے اب نو سال بعد بیوی کا کہنا یہ ہے کہ اس کے شوہر نے یہ الفاظ تین مرتبہ کہے تھے اور اب اس نے ایک عالم سے مشورہ کیا ہے اس نے کہا کہ ان الفاظ سے طلاق کا مطلب نکلتا ہے اور نو سال قبل طلاق ہو چکی ہے کہ اس نے صرف ایک مرتبہ یہ الفاظ کہے اور اس کا حلفاً کہنا یہ ہے کہ تیسرے دن بھی یہ الفاظ ادا کرنے سے اس کی نیت طلاق کی ہرگز نہیں تھی اس نے ایک مرتبہ طلاق کا لفظ استعمال نہیں کیا ان تمام حقائق کی روشنی میں براہ کرم اپنے فیصلے سے آگاہ کریں۔ طلاق ہوگئی ہوئی تو کونسی؟ کیا اب کوئی حل ہے؟

بشرط صحت سوال صورت مذکورہ میں طلاق واقع نہیں ہوئی، کیونکہ شوہر کے ادا کردہ مندرجہ ذیل الفاظ ’’بس اب یہ شادی ختم ہو چکی ہے کسی کو اپنے گھر سے بلائو وہ آکر تمہیں لے جائے‘‘ کنایہ کے الفاظ ہیں اور شوہر کے بقول اس نے ان الفاظ سے طلاق کی نیت نہیں کی اس لیے طلاق واقع نہیں ہوئی اس لیے کہ کنائی الفاظ سے طلاق واقع ہونے کے لیے ضروری ہے کہ ان الفاظ سے طلاق کی نیت کی جائے۔

لما فی العالمگیریہ:

’’ولو قال لانکاح بینی وبینک اوقال لم یبق بینی و بینک نکاح یقع الطلاق اذا نوی (الی قولہ) ولو قال انا بری من نکاحک یقع الطلاق اذا نوی‘‘۔"