+(00) 123-345-11

میری ایک شیعہ سے بات ہوئی ہے وہ کہتا ہے کہ متعہ اسلام میں جائز ہے اور حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہوتا رہا اور اسلام میں تحریف کرنے والے لوگوں (حضرت عمرؓ) نے ختم کیا ’’میں دو متعہ حرام کرتا ہوں جو آج سے پہلے جائز تھا یعنی متعہ النساء و متعۃ الحج‘‘ از حضرت عمرؓ

(صحیح البخاری و مسلم)

حضرت علیؓ نے فرمایا ’’اگر حضرت عمرؓ متعہ حرام نہ کرتے تو شائد ہی قیامت تک کوئی بدبخت شخص ہوتا جو زنا کرتا ’’نہج البلاغۃ‘‘ ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ایک مٹھی جو کے بدلے متعہ کیا کرتے تھے۔ (حضرت ابو ایوب انصاری صحیح البخاری و مسلم) اور سنو! کسی کے لیڈر کو اس طرح نہیں کہتے تمہیں کیا پتہ کہ جس کو تم اپنا لیڈر مانتے ہو ان کی آدھی سے زیادہ زندگی زنا اور شراب میں گذری ہو اور کب کب انہوں نے اسلام لانے کے بعد حضور پاک پر شک کیا ہو۔ مہربانی فرما کر مذکورہ حوالہ جات کو صحیح البخاری اور مسلم سے آپ بھی دیکھیں اور بتائیں کہ میں اس کا کیا جواب دوں۔

متعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی ہی میں حرام قرار دیا گیا تھا صحیح مسلم شریف کی روایت ہے

حدثنی ربیع بن سبرہ الجھنی عن ابیہ ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نھی عن المتعۃ وقال الاانھا حرام من یومکم ھذا الی یوم القیامۃ۔

(مسلم شریف ص ۴۵۲‘ ج ۱)

ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے متعہ سے منع فرمایا اور فرمایا کہ یہ آج سے قیامت تک کے لیے حرام ہے۔

علامہ نوویؒ فرماتے ہیں کہ مختار اور درست قول یہ ہے کہ پہلے متعہ حلال تھا غزوہ خیبر کے موقع پر اس کو حرام قرار دیا گیا پھر فتح مکہ کے موقع پر اس کی اجازت دی گئی پھر تین دن کے بعد اس کو ہمیشہ کے لیے حرام کر دیا گیا۔

والصواب المختار ان التحریم والا باحۃ کانا مرتین فکانت حلالاً قبل خیبر ثم حرمت یوم خیبر ثم ابیحت یوم مکۃ وھو یوم اوطاس لاتصالھا ثم حرمت یومئذٍ بعد ثلثۃ ایام تحریمھا مؤبدًا الی یوم القیامۃ واستمر التحریم۔

(نووی شرح مسلم ص ۴۵۰‘ ج ۱)

باقی جو آپ نے حضرت علیؓ کے متعلق بیان کیا یہ ان حضرات کا حضرت علیؓ پر بہتان ہے۔"