+(00) 123-345-11

وسیلہ اور نیاز کی کیا حقیقت ہے ہماری والدہ کی جانب سے کچھ رشتہ دار شیعہ ہیں وہ یہ ساری حرکتیں کرتے ہیں مثلاً لال قلندر کے مزار پر جانا اور یہ کہ نیاز جائز ہے مگر میں نے سورۃ بقرہ میں پڑھا ہے کہ نیاز حرام ہے مہربانی فرما کر تفصیل سے بیان فرمائیں؟

توسل خواہ زندوں سے ہو یا مردوں سے، ذوات سے ہو یا اعمال سے، اپنے اعمال سے ہو یا غیر کے اعمال سے بہر حال اس کی حقیقت اور ان سب صورتوں کا مرجع توسل برحمۃ اللہ تعالیٰ ہے بایں طور کہ اے اللہ میں فلاں مقبول بند ے پر جو رحمت ہے اس کے وسیلہ سے دعا کرتا ہوں یا فلاں نیک عمل اپنا یا غیر کا جو محض آپ کی عطا اور رحمت ہے اس کے توسل سے دعا کرتا ہوں۔ توسل بالرحمۃ کے جواز بلکہ ارجی للقبول ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے۔ مزید تفصیل کے لیے علامہ زاہد الکوثری رحمہ اللہ کا رسالہ ’’محق النقول فی مسئلۃ التوسل‘‘ کی طرف رجوع فرمائیں۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ حضرات انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام اور اولیاء اللہ العظام اور صلحاء کرام کے وسیلہ سے اللہ سے دُعا مانگنا شرعاً جائز بلکہ قبولیت دعا کا ذریعہ ہونے کی وجہ سے مستحسن اور افضل ہے۔ قرآن و حدیث کے اشارات و تصریحات سے اس قسم کا توسل بلاشبہ ثابت ہے اور ائمہ مجتہدین سے بھی ثابت ہے نمونہ کے طور پر صرف امام شافعی رحمہ اللہ کا قول نقل کرتا ہوں کہ وہ فرماتے ہیں ’’میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے وسیلہ سے برکت حاصل کرتا ہوں اور میں ان کی قبر پر زیارت کے لیے حاضر ہوتا ہوں اور جب مجھے کوئی حاجت درپیش ہوتی ہے تو وہ دو رکعت نماز پڑھتا ہوں اور ان کی قبر کے قریب اللہ تعالیٰ سے حابت روائی کی دعا کرتا ہوں تو میری مراد جلد پوری ہو جاتی ہے۔

انی لاتبرک بابی حنیفۃ واجیئی الی قبرہ فاذا عرضت لی حاجۃ صلیت رکعتین وسألت اللہ عند قبرہ فتقضی سریعا۔ (ردالمختار ۱/۵۵ تاریخ الخطیب ۱/۳۳)

نیاز (نذر) کرنے کو کہتے ہیں عرف میں یہ لفظ (نذر) کے لیے مستعمل ہے اور نذر صرف اللہ تعالیٰ کے نام پر دینی جائز ہے غیر اللہ (کسی بزرگ یا پیر) کے نام پر دینا شرعاً ناجائز ہے۔"