+(00) 123-345-11

جامع مسجد بیل مور بنانے کے متعلق دو سال قبل بورڈ کے ممبروں نے پروگرام بنایا۔ پچھلے رمضان سے قبل بورڈ کے ممبران نے فیصلہ کیا کہ مسجد کے تہہ خانہ میں عورتوں کے لیے تراویح پڑھنے کی جگہ بنائی جائے۔ تہہ خانہ کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ایک حصہ مردوں کے لیے اور دوسرا حصہ مستورات کے یے جب تہہ خانہ مکمل ہوا تو اس کے ایک حصہ یعنی نصف حصہ کو مستورات کی نماز کے لیے مختص کر دیا گیا تہہ خانہ کو بڑی احتیاط سے اس طرح تیار کیا گیا کہ مستورات کا داخلہ کا راستہ الگ رکھا گیا اور مردوں کا الگ جمعہ کے روز خاص طور پر آدھا حصہ مرد اور آدھا عورتیں استعمال کرتی ہیں کچھ عرصہ قبل کمیٹی نے عورتوں کے لیے درس کا بندوبست کیا۔ درس پڑھانے والی بھی ایک خاتون ہیں۔ جو کہ تہہ خانہ کے آدھے حصہ میں درس دیتی ہیں کیا اس طرح سے آدھا آدھا حصہ مختص کر کے استعمال کرنا درست ہے۔ مہربانی کر کے رہنمائی فرمائیں؟

عورتوں کے لیے گھر پر نماز پڑھنا افضل ہے جبکہ مسجد میں آکر نماز پڑھنا عورتوں کے لیے مکروہ ہے۔ لہٰذا ان کو گھر پر نماز پڑھنے کی ترغیب دی جائے۔ البتہ غیر مسلم ممالک میں وہاں کی عورتیں اگر گھر پر دینی تعلیم کا انتظام نہ ہونے کی وجہ سے حصول تعلیم کے لیے یا کبھی کبھی نماز کے لیے مکمل پردہ کے ساتھ مسجد کے ایک علیحدہ حصہ میں آنا چاہیں تو مردوں کو روکنے میں تشدد نہیں کرنا چاہیے اور ایسی عورتوں کے لیے مسجد میں الگ جگہ مختص کر دیں۔

واضح رہے کہ عورتوں کو گھر پر نماز پڑھنے کی ترغیب دیتے رہیں۔

قال المصنف فی الکا فی الفتویٰ الیوم علی الکراھۃ فی الصلوٰۃ کلھا لظہور الفساد، البحر الرائق۔

عن ابن عمر رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لاتمنعوا نساء کم المساجد وبیوتھن خیر لھن۔ ابوداؤد۔

الجملۃ الاولیٰ نھی للرجال عن منع النساء عن الحضور فی المسجد والجملۃ الثانیۃ حث و ترغیبٌ للنساء ان یصلین فی بیوتھن فانہ افضل لھن

(بذل المجہود ص ۳۱۹، ج ۱)"