+(00) 123-345-11

کچھ لوگ کہتے ہیں کہ سورۃ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی مجھے کیا کرنا چاہیے کیا جب امام قرأت کر کے خاموش ہو جائے تو خود پڑھنا چاہیے اور کیا ظہر اور عصر کی نمازوں میں سورۃ فاتحہ پڑھنا ضروری ہے۔ مجھے اس سلسلہ میں قرآن و حدیث کی روشنی میں فتویٰ چاہیے۔

صورت مسؤلہ میںامام کے پیچھے مقتدی کو خاموش رہنے کا حکم ہے چاہے کوئی بھی نماز ہو۔ جس حدیث میں آیا ہے کہ جس نے سورۃ فاتحہ نہیں پڑھی اس کی نماز نہیں ہوئی، وہ منفرد (اکیلے نماز پڑھنے والے) کیلئے ہے نہ کہ مقتدی کیلئے بلکہ مقتدی کیلئے حکم یہ ہے کہ وہ خاموشی سے امام کے پیچھے کھڑا رہے چاہے نماز سری ہو یا جہری ہو۔ حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے ہمیں خطاب فرمایا اور سنت کے مطابق زندگی بسر کرنے کی تلقین فرمائی اورنماز کا طریقہ بتلایا اور یہ فرمایا کہ نماز پڑھنے سے قبل اپنی صفوں کو درست کرلو پھر تم میںسے ایک تمہارا امام بنے جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو اور جب وہ قرات کرے تو تم خاموش رہو اور جب وہ غیر المغضوب علیہم ولاالضالین کہے تو آمین کہو۔

عن ابی موسی الاشعری قال ان رسول اﷲﷺ خطبنا فبین لنا سنتنا علمنا صلوتنا فقال اذا صلیتم فاقیموا صفوفکم ثم لیؤمکم احدکم فاذا کبر فکبروا واذا قرأ فانصتوا واذا قال غیرالمغضوب علیھم والاالضالین فقولوا آمین۔ (مسلم ۱/۱۷۴)

حضرت جابر بن عبداﷲ حضور ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ جس نے امام کے پیچھے نماز پڑھی تو امام کی قرأت ہی اس کی قرات ہے۔

عن جابر بن عبداﷲ عن النبی ﷺ قال من صلی خلف الامام فان قرأۃ الامام لہ قرأۃ۔ ( مؤطا امام محمد ۹۵)"