+(00) 123-345-11

نفل کی جماعت کا کیا حکم ہے؟ اسی طرح رمضان میں قیام اللیل کا کیا حکم ہے؟ لوگوں میں شبینہ کا رواج جڑ پکڑ رہا ہے کیا یہ ٹھیک ہے اگر نماز تراویح میں نابالغ کو امام بنایا جائے تو جائز ہے؟ ہمارے امام صاحب تجویدی طور پر غلطیاں کرتے ہیں کیا اس سے نماز میں کوئی فرق نہیں پڑتا اور اسی طرح بلاوجہ لائوڈ سپیکر بھی بے جا استعمال کیا جاتا ہے۔ برائے مہربانی قرآن و سنت کی روشنی میں راہنمائی فرمائیں۔

نفل نماز میں اگر دو مقتدی امام کے پیچھے بغیر تداعی کے آکر کھڑے ہو گئے اور جماعت کی صورت بن گئی تو اس میں کوئی کراہت نہیں، اور اگر مقتدی تین ہوں تو اس میں اختلاف ہے اور مقتدی چار ہونے کی صورت میں تو باتفاق آئمہ احناف نماز مکروہ ادا ہوگی، قرآن و سنت میں کہیں بھی نوافل کو تداعی کے ساتھ باجماعت ادا کرنے کا تذکرہ نہیں ہے، البتہ بعض آئمہ مثلاً امام شافعیؒ وغیرہ کے نزدیک نوافل کو باجماعت پڑھنے کی گنجائش ہے۔

رمضان کی راتوں میں اگر تراویح میں قیام اللیل کیا جائے اور نمازِ تراویح کو باجماعت ادا کیا جائے تو جائز ہے، اور محض نوافل میں قیام اللیل کرتے ہوئے جماعت کا اہتمام کرنا مکروہ ہے۔

اگر واقعی امام صاحب قرآنِ کریم پڑھنے میں غلطیاں کرتے ہیں تو انہیں چاہیے کہ وہ کسی ماہر قاری صاحب کی راہنمائی میں اپنا تلفظ درست کریں اور اغلاط کو دور کرنے کی کوشش کریں یا کسی ایسے شخص کو مصلٰی امامت پر کھڑا کریں جس کی قرأت میں غلطیاں نہ ہوں، مگر یہ بات کہ امام صاحب کی قرأت میں غلطیاں ہیں یا نہیں؟ اس کو معلوم کرنا ہر مقتدی کے بس کی بات نہیں، اس بات کا فیصلہ کوئی ماہر قاری ہی کر سکتا ہے، اگر امام صاحب کی قرأت میں کوئی قابل ذکر اغلاط نہ ہوں تو مقتدیوں کو چاہیے کہ وہ خواہ مخواہ امام صاحب کو پریشان نہ کریں۔

نماز باجماعت کے دوران مقتدیوں کی ضرورت سے زائد بالخصوص لائوڈ اسپیکر کے ذریعہ آواز کو بلند کرنا جبکہ اس سے دیگر حاجات میں مشغول اور بیمار حضرات کو بھی تکلیف ہوتی ہے کسی طرح جائز نہیں۔

نابالغ کی اقتداء میں بالغ حضرات کا تراویح کی نماز ادا کرنا جائز نہیں۔

ولو صلوا الوتر بجماعۃ فی غیر رمضان فھو صحیح، مکروہ کا لتطوع فی غیر رمضان بجماعۃ وقیدہ فی الکا فی بان یکون علی سبیل التداعی اما لوا قتدی واحد بواحد اواثنان بواحد لا یکرہ۔ واذا اقتدی ثلاثۃ بواحد اختلفوا فیہ وان اقتدیٰ اربعۃ بواحد کرہ اتفاقاً۔

(البحر الرائق ۲/۷۰ باب الواتروا النوافل)

ایضاً (الدر المختار علی ردالمختار ۲/۴۸ بحث صلوٰۃ التراویح)"