+(00) 123-345-11

مفتی صاحب گذارش ہے کہ ہم الحمدللہ دیوبند مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں دیوبند مکتبہ فکر کی جامع مسجد میں نماز ادا کرتے ہیں جہاں امام صاحب اور انتظامیہ وغیرہ سب دیوبند ہیں ہمارا سوال یہ ہے کہ ماہ رمضان میں تراویح فنڈ/ رمضان فنڈ کے نام سے چندہ اکٹھا کیا جاتا ہے اور ختم قرآن کے موقع پر اس رقم سے امام صاحب (جو کہ تراویح میں خود قرآن پاک پڑھتے ہیں) کو حصہ دیا جاتا ہے۔ کچھ رقم سے مٹھائی وغیرہ خرید کر مقتدیوں میں تقسیم کر دی جاتی ہے اور کچھ رقم سے اعتکاف میں بیٹھنے والے حضرات کے لیے کتابیں خریدیں جاتیں ہیں۔ اب جبکہ مفتی رشید احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے واضح لکھا ہے کہ قرآن سنانے والے کے لیے رقم لینا کسی طور پر بھی جائز نہیں اور مٹھائی کھانا بھی بدعت میں داخل ہے انتظامیہ یہ رقم امام صاحب کو دیتی ہے اور امام بھی خوشی سے وصول کرتا ہے لیکن نیت یہ ہے کہ یہ رقم قرآن سنانے کا معاوضہ نہیں بلکہ ویسے ہی خدمت ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس رقم کو خدمت کے طور پر دینا جائز ہے یا نہیں؟ اس خدمت کو ہم کس لقب سے پکاریں کہ یہ جائز ہو جائے یا کسی بھی صورت جائز نہیں ہو سکتی؟ کیا مٹھائی خریدنا اور اس موقع پر بانٹنا جائز ہے؟ کیا کتابیں خریدنا اورف دینا جائز ہے اور اہم سوال یہ کہ مقتدیوں سے تراویح فنڈ / رمضان فنڈ اکٹھا کرنا جائز ہے؟ برائے مہربانی جواب واضح الفاظ میں دیں اور ابہام پیدا کرنے والے الفاظ استعمال نہ کریں اور جوابات جلد دیں کیونکہ مسجد میں فضا کشیدہ ہے اللہ آپ کو جزائے خیر دے آمین ثم آمین۔

صورت مسئولہ میں جبکہ حافظ صاحب نے کوئی رقم قرآن سنانے پر مقرر نہ کی ہو اور نہ ہی اس مسجد میں ہر سال ایک مخصوص متعین رقم حافظ قرآن کو دی جاتی ہو اور نہ ہی حافظ صاحب کو دینے کے لیے چندہ مہم چلائی گئی ہو تو اگر کوئی شخص انفرادی طور پر حافظ صاحب کی خدمت کرنا چاہے تو حافظ صاحب کے لیے اس کا لینا بلاشبہ جائز ہے۔

واضح رہے کہ جو رقم حافظ صاحب کو بطور امداد کے بغیر تعین مقدار کے مذکورہ بالا شرائط کا لحاظ رکھتے ہوئے دی جاتی ہے وہ لاجل الختم (ختم کی وجہ سے) ہوتی ہے بعوض الختم (ختم کے معاوضے میں) نہیں ہوتی اور ان دونوں میں فرق واضح ہے۔

حافظ صاحب کو دینے کے لیے اور مٹھائی وغیرہ لانے کے لیے چندہ مہم چلانا درست نہیں ہے اس لیے کہ چندہ مہم میں کئی ایسے حضرات چندہ دیتے ہیں جو محض اپنی عزت بچانے کی غرض سے دیتے ہیں دل سے بطیب خاطر نہیں دیتے اور حدیث شریف میں ہے ’’لایحل اکل مال امرأ مسلم الابطیب نفسہ‘‘ (مشکوٰۃ) یعنی کسی شخص کا مال اس کی دلی رضا مندی کے بغیر کھانا حلال نہیں ہے۔ آجکل مساجد میں ہر ایک کے ذمہ لگا دیا جاتا ہے کہ آپ نے مثلاً 100/- روپے دینے ہیں اور اگر کوئی نہ دے تو اس کو برا بھلا کہا جاتا ہے ایسا کرنا ناجائز ہے اور اس طرح چندہ اکٹھا کرکے مٹھائی وغیرہ کا انتظام کرنا بھی درست نہیں ہے۔

البتہ اگر کوئی شخص انفرادی طور پر یا چند اشخاص مل کر اجتماعی طور پر اپنی دلی رضامندی سے مٹھائی وغیرہ کا انتظام کریں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔"