+(00) 123-345-11

ہمار ے کالج میں ایک پروفیسر صاحب ہیں جو دوران لیکچر طلبہ کے سامنے حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں نامناسب گفتگو کرتے رہتے ہیں اور تاریخی روایات کا سہارا لے کر ان پر کیچڑ اچھالتے رہتے ہیں۔ قرآن و سنت کی روشنی میں ان کا ایسا کرنا کیسا ہے؟

حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عظمت و رفعت قرآن و حدیث کی بے شمار نصوص قطعیہ سے ثابت ہے بطور نمونہ چند آیاتِ قرآنیہ درج ذیل ہیں۔

(۱) والسابقون الأولون من المھاجرین والأنصار والذین اتبعوھم باحسان رضی اللہ عنہم و رضواعنہ واعد لھم جنت تجری تحتھا الانھر۔ (پ ۱۱، رکوع نمبر ۱، التوبہ)

ترجمہ: اور جو مہاجرین اور انصار (ایمان لائے میں سب سے) سابق اور مقدم ہیں اور (بقیہ امت میں) جتنے لوگ اخلاص کے ساتھ ان کے پیرو ہیں اللہ تعالیٰ ان سب سے راضی ہوا اور وہ سب اس (اللہ) سے راضی ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے ایسے باغ مہیا کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی۔

(۲) محمد رسول اللہ والذین معہ اشدآء علی الکفار رحماء بینھم تراھم رکعا سجدا یتبغون فضلاً عن اللہ ورضوانا سیماھم فی وجوھم فی اثر السجود ..... وعد اللہ الذین امنو وعملوا الصحلت منھم مغفرۃ واجرا عظیماً۔ (الفتح)

ترجمہ: محمد اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ آپ کے صحبت یافتہ ہیں وہ کافرون کے مقابلے میں تیز ہیں اور آپس میں مہربان ہیں۔ اے مخاطب تو ان کو دیکھے گا کہ کبھی رکوع کر رہے ہیں اور کبھی سجدہ کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل اور رضا مندی کی جستجو میں لگے ہیں ان کے آثار بوجہ تاثیر سجدہ ان کے چہروں پر نمایاں ہیں ........ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں سے جو ایمان لائے اور نیک کام کرتے رہے، بخشش اور اجر عظیم کا وعدہ کیا ہے۔

(۳) اولئک ھم الصادقون: ’’یہی لوگ سچے ہیں‘‘۔

(۴) اولئک علی ھدی من ربہم و اولئک ھم المفلحون: ’’یہی لوگ اپنے رب کی جانب سے سیدھے راستے پر ہیں اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں‘‘۔ (پ ۱، البقرہ)

(۵) ولکن اللہ حبب الیکم الایمان وزینہ فی قلوبکم وکرہ الیکم الکفر والفسوق والعصیان اولئک ھم الراشدون فضلا من اللہ ونعمۃ واللہ علیم حکیم‘‘ (الحجرات)

ترجمہ: لیکن اللہ تعالیٰ نے ایمان کو تمہارے لیے محبوب کر دیا۔ اور اس کو تمہارے دلوں میں مزین بنا دیا اور کفر فسوق اور نافرمانی کو تمہارے لیے مکروہ بنا دیا۔ ایسے لوگ ہی اللہ تعالیٰ کے فضل اور نعمت سے ہدایت یافتہ ہیں۔ اور اللہ خوب جاننے والا، حکمت والا ہے۔

ان آیات قرآنیہ کی روشنی میں صحابہ کرام کی عظمت و رفعت روزِ روشن کی طرح واضح ہوتی ہے۔ لہٰذا ہر مسلمان کے ذمہ لازم ہے کہ وہ ہمیشہ صحابہ کرامؓ کا ذکر خیر ہی کرے اور اگر ان میں سے کسی سے کوئی خطا ہوئی بھی ہے تو وہ خطاء اجتہادی تھی جس پر وہ حضرات ماجور من اللہ ہیں مزید یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی تمام خطائیں معاف فرما کر انہیں دنیا میں ہی اپنی رضا عطا کیے جانے کا اعلان فرما دیا ہے۔

لہٰذا جو لوگ تاریخی روایات کا سہارا لے کر ان نفوس قدسیہؓ پر طعن و تشنیع یا بے سروپا اعتراضات کرتے ہیں انہیں اپنے ایمان کی فکر کرنی چاہیے اور سوئے خاتمہ سے ڈرنا چاہیے نیز ان کا یہ عمل قرآن و سنت کے احکامات سے لاعلمی اور واضح جہالت کا ثبوت ہے اور سخت گناہ کا کام ہے نیز کالج کی انتظامیہ کا فرض بنتا ہے کہ مذکورہ پروفیسر کو ہر ممکن اور جائز طریقے سے اس عمل سے روکیں اور جن طلبہ کے سامنے ایسی گفتگو کی گئی ہے ان کے سامنے قرآن و حدیث کی روشنی میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عظمت و رفعت کو بیان کیا جائے تاکہ طلبہ حقیقت سے آگاہ ہو سکیں۔

(۱) ویکف عن ذکر الصحابہ الابخیر۔ (العقائد النسفیہ)

(۲) لایجوز لاحدان یذکر شیئًا من مساویہم ولا ان یطعن علی احد منھم بعیب ولا نقص ضمن فعل ذلک وجب تأدیبہ.... (الصارم المسلول لابن تیمیہ)"